اینوں لاہور لے جاؤ…تحریر محمد اظہر حفیظ

ہر بگڑے معاملے کا حل اینو لاہور لے جاؤ ۔کوئی لاعلاج بیماری ہو ڈاکٹر اور تیماردار یہی کہتے اینو لاہور لے جاؤ۔ اگر کسی کا دماغی توازن بگڑ جائے تو بھی لاہور ہی یاد آتا تھا کہ اینو لاہور لے جاؤ کیونکہ شاید ہی کسی کو لاہور کے علاؤہ کسی پاگل خانے کا پتہ ہو۔ لاہور کے بارے میں ہمیشہ سے مشہور تھا کہ جینے لاہور نئیں تکیا او جمیا نئیں ۔ الحمدللہ اب آپ لاہور میں رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو پیدا ہوا ہوا محسوس نہیں کرسکتے کیونکہ لاہور میں رہتے ہوئے بھی آپ لاہور نہیں دیکھ سکتے ۔ ابھی ایک غزل سن رہا تھا کہ منزل ہے سامنے مگر راستہ ملتا نہیں۔ مجھے لگا لاہور کی بات ہورہی ہے۔ لاہور کے بعد یہ سہولت سارے پاکستان میں مہیا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کہ کسی کو کچھ نظر نہ آئے مجھے فکر ہے جلد ہی ڈاکو اپنے ہی گھروں میں ڈکیتی شروع نہ کردیں گے کیونکہ عادت سے مجبور ہیں اب کوئی دوسرا گھر تو نظر ہی نہیں آتا ۔ آج ہی سوشل میڈیا پر ایک لطیفہ پڑھا سوچا آپ سے بھی شئیر کردوں۔ لاہور میں دو گاڑیاں آپس میں ٹکرا جاتیں ہیں ۔ ٹیوٹا فارچونر سے اترنے والا جوان سامنے والی گاڑی والے کو گالی دے کر کہتا ہے کہہ تو جاندا نئیں میرا باپ کون ہے۔ مرسڈیز گاڑی سے اترنے والا بزرگ مسکرا کر کہتا ہے میں جانتا ہوں کیونکہ میں ہی تمھارا باپ ہوں۔ اب سموگ اور دھند کی وجہ سے سامنے کھڑے باپ بیٹا ایک دوسرے کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ سموگ کا علاج ہم سب کو ملکر کرنا ہوگا یہ کوئی بھی اکیلی حکومت نہیں کرسکتی ۔ ہمیں اپنے حصے کے درخت لگانے ہوں گے اور اپنے حصے کے دھوئیں کو روکنا ہوگا۔ وہ موٹر سائیکل کا دھواں ہو گاڑی کا یا فیکڑی کا۔ سب کو اپنی جگہ اپنا کردار نبھانا ہوگا ورنہ لاہور جانے کی ضرورت نہیں رہے گی پورا پاکستان ہی لاہور بن جائے گا۔ پہلے دو راوی دریا ہوتے تھے ایک دریائے روای اور دوسرا بڈھا راوی۔ مجھے ڈر ہے کہیں ہمیں ایک اور نیا لاہور بسانا نہ پڑ جائے اور اس لاہور کو بڈھا لاہور کہنا پڑ جائے۔ بڈھا روای بھی ہماری غلطیوں سے گم ہوگیا اور اب لاہور بھی گم ہوتا محسوس ہورہا ہے پر دکھائی نہیں دے رہا۔ سموگ کی ایک ہی خوبصورتی ہے کہ یہ سب جگہ یکساں ہے امیر غریب کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ ورنہ اس میں بھی ورائٹی اجانی تھی غریب کی سموگ اور پوش علاقے کی امیر سموگ۔ دھند پڑتی تھی تو اس میں سانس لیتے ہوئے ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا اب اگر آپ سانس نہیں لینا چاہتے تو ہمیں آپکو لاہور لے جانا ہی پڑے گا۔ میں نے جو لاہور دیکھا باغوں کا شہر لاہور وہ میں آپ کو تصاویر میں ہی دکھا سکتاہوں۔ بتا سکتا ہوں اب دکھا نہیں سکتا کیونکہ اب نظر ہی کچھ نہیں آتا۔ شاید لاہور کی سب سے پرانی تصاویر فقیر اعجاز صاحب کے پاس ہی ہیں۔ پر آپ اب دیکھنے کیلئے فقیر اعجاز صاحب کے گھر نہیں جاسکتے ۔ کیونکہ اب کوئی گلی، محلہ یا گھر نظر نہیں آتے۔ اگر بات اس سے آگے بڑھ گئے تو شہر بھی نظر آنا بند ہو جائیں گے۔ ہم سب کو باقی ماندہ زندگی کیلئے اور آنے والی نسلوں کیلئے وہ تمام احتیاطی اقدامات کرنا ہوں گے۔ جن سے سموگ کا سدباب کیا جاسکے۔ گورنمنٹ پنجاب بڑی تندہی سے کوشش میں مصروف ہے جس کے رزلٹ آنے والے سالوں میں نظر آئیں گے۔ کیونکہ سموگ کئی دھائیوں کی مسلسل محنت سے ہم نے کمائی ہے اس کا سدباب بھی کئی سالوں میں ممکن ہوگا۔ لیکن ناممکن کچھ بھی نہیں۔ انشاء اللہ اگر ہم سب ملکر کوشش کریں تو ہم اپنے ملک کو سموگ سے پاک پاکستان بنا سکتے ہیں۔ چائنہ کے کئی شہریوں کو ہم نمونے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اور انہیں اقدامات کو پاکستان میں رائج کرکے سموگ کو قابو میں لا سکتے ہیں۔ اس سنگین مسئلے کوبھی میں کہوں گا اینوں لاہور لے جاؤ اب اس کا علاج وہیں سے ممکن ہے۔ انشاء اللہ