’’سیاسی روبوٹ ‘‘… مظہر عباس


وہ سب کے سب ایک زمانے میں جدوجہد کے ساتھی تھے مگر اُس دن مجھے وہ ’’روبوٹ‘‘ لگ رہے تھے، نہ اُنہیں یہ پتا تھا کہ کیا ترمیم ہونے جا رہی ہے، نہ اُن میں سے کسی میں اتنی جُراتِ تھی کہ کسی بہانے اسلام آباد نہ جاتے۔ کراچی ایئرپورٹ پر کوئی ایک درجن سے زائد اراکین قومی اسمبلی تھے جن میں کچھ خواتین بھی شامل تھیں اُستاد بھی تھے اور اُستانی بھی۔ اب یہ حُسنِ اتفاق تھا کہ ہم سب ایک ہی جہاز کے مسافر تھے۔ گپ شپ ہوئی تو مجھ سے اکثر نے وہی سوال کیا جو عام لوگ کرتے ہیں، کیا ہونے جا رہا ہے۔ میں نے جواب میں سوال کیا، ’’آپ لوگ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ کب تاریخ سے سبق سیکھیں گے‘‘ ایک نے کہا، ’’ہم اُس ترمیم پر ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں جس کا ہمیں ابھی تک پتا نہیں‘‘۔ میں سمجھ گیا اور سوچنے لگا کہ روبوٹ تو بس ریموٹ سے چلتے ہیں جو فیڈ کردیا بس وہی کرتے ہیں انکار کی گنجائش نہیں۔

یہ تو ایک مجموعی سیاسی صورتحال ہے مگر جس سیاسی جماعت کے رہنمائوں کو اب مکمل طور پر ’’روبوٹ‘‘ کے طریقہ سے چلایا جا رہا ہے وہ ہےاپنے وقت کی سب سے زیادہ منظم اور شہری سندھ کی نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) جو اتنی ٹوٹ پھوٹ کے بعد بھی ایک اور تقسیم کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس وقت چیئرمین خالد مقبول صدیقی ،جو وفاقی وزیر بھی ہیں ،کوپارٹی میں شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ خالد بھائی کو میں اُس وقت سے جانتا ہوں جب وہ میڈیکل کالج کے طالبعلم اور آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس کے چیئرمین تھے اور بانی متحدہ کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ پارٹی کے مرکزی لیڈر اُن سے کئی بار درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ’’دو ٹوپی‘‘ کے بجائے ایک ’’ٹوپی‘‘ پہنیں۔ مگر جب آپ ’’روبوٹ‘‘ ہوں تو اصل فیصلہ تو کسی اور نے کرنا ہوتا ہے بدقسمتی سے ایم کیو ایم خاص طور پر 22 اگست 2016ء سے مکمل طور پر ریموٹ کنٹرول سے چل رہی ہے کئی مثالیں سامنے ہیں مثلاً پارٹی میں ایک وقت میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے حوالے سے شدید اختلافات تھے۔ پھر ایک دن ریموٹ کنٹرولر آئے، ٹیسوری کو اپنے ساتھ بٹھایا اور بس اتنا کہا کہ آج سے یہ ہمارے گورنر ہیں، لو کر لو گل۔

دوسری مثال پاک سر زمین پارٹی کی ہے، جب لانچ کی گئی غالباً فروری 2016ء میں تو اُس کا ٹارگٹ بانی متحدہ اور ایم کیو ایم تھی۔ سابق میئر مصطفیٰ کمال اور مرکزی لیڈر انیس قائم خانی جو دیگر ساتھیوں سمیت 2013ء کے الیکشن کے بعد بانی متحدہ کی 90عزیز آباد میں رابطہ کمیٹی کے ممبران کی بے عزتی کے بعد پارٹی چھوڑ کر دبئی چلے گئے تھے، اب وہ سب ایم کیو ایم (پاکستان) کا حصہ بنا دیئے گئے ہیں۔ اب سب فیصلے کوئی ریموٹ کنٹرول سے کرتا ہے اور یہی ہماری سیاست کی بدقسمتی ہے۔ اب ان کو میں ’’روبوٹ‘‘ نہ کہوں تو کیا کہوں کہ 2018ء میں پارٹی کی کار کردگی بُری نہیں تھی 8سے10سیٹیں جیت گئے تھے مگر اُس وقت سابق وزیراعظم عمران خان کو اقتدار میں لانا تھا لہٰذا نہ صرف اُن کی سیٹوں کی تعداد کم کر دی گئی بلکہ کہا گیا کہ حمایت کرنی ہے ’’ناں‘‘کی صورت میں 22اگست کے مقدمہ کے لیے تیار رہیں۔ پھر ’’عدم اعتماد‘‘ کی تحریک آ گئی تو اُنہی روبوٹس سے کہا گیا، اِس (عمران) کے خلاف ووٹ دینا ہے۔ چلو دے دیا کیا اب ہم اپنی سیاست آزادانہ طریقہ سے کر سکتے ہیں مشین میں فیڈ کیا گیا، ’’نہیں‘‘ نہ سیکٹر بنانے کی اجازت نہ نام یونٹ رکھ سکتے ہیں تو پھر مجبوراً ’’ٹائون کمیٹی‘‘ رکھا گیا ۔ گورنر کی ایک آڈیو لیک ہوئی تو پارٹی کی مرکزی کمیٹی معطل کر دی گئی۔ اس وقت صرف چیئرمین ہیں باقی عہدے خالی ہیں۔ پھر 8فروری 2024ء ا ٓگیا تو پارٹی کو 17سیٹیں دلوا دی گئیں جبکہ صورتحال انتہائی بد ترین تھی اور شاید دو یا تین بھی مشکل سے نصیب ہوتیں۔ ماضی میں 1992ءمیں جن ’’روبوٹس‘‘ کو لایا گیا تھا اُن بیچاروں کا بھی بس استعمال ہوا اور پھر اُنہیں ناکارہ بنا دیا گیا ۔ یہی ہماری سیاست کا ڈھنگ رہا ہے۔ انکا کیا ذکر کریں اب تو بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈرز بھی روبوٹ کی مانند چل رہے ہیں۔

ہاں ایک وقت تھا جب سیاست کا مرکز 90عزیز آباد ہوتا تھا۔ کیا صدر، کیا وزیر اعظم، کیا پی پی پی اور کیا مسلم لیگ (ن) حکومت بنانی ہو یا توڑنی ہو ’’حاضری‘‘ ضروری تھی۔ مقتدرہ کی اعلیٰ قیادت تو خیر وہاں نہیں آئی البتہ ’’اعلیٰ گھروں‘‘ میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ جو چیزاس وقت کی ایم کیو ایم بھول گئی وہ تاریخی حقیقت کہ آپ کا امتحان شروع ہی اُس وقت ہوتا ہے جب اقتدار مل جائے اور آپ با اختیار ہوں۔ یہ آپ کا سبق ہے طاقت کے وقت عاجزی اور اختیار کے وقت دوسروں کے کام آنا۔ مجھے تو وہ ایم کیو ایم بھی یاد ہے جس کے اراکین اسمبلی موٹر سائیکل یا بسوں میں سفر کر کے اسمبلیوں میں پہنچا کرتے تھے ۔اب اُن میں سے بعض کی گاڑیاں اُن گلیوں میں نہیں جاسکتیں جہاں اُن کے ووٹرز رہتے ہیں۔ پھر میں نے وہ ایم کیو ایم بھی دیکھی جو دہشت کا نشان بن گئی تھی کہ ایک فون پر کراچی بند۔ پھر وہ ایم کیو ایم بھی دیکھی جس پر کئی مخالفین کو قتل کرنے کے الزامات لگائے گئے، پھر اپنے ہی ہاتھوں مارے جانے کی خبریں۔ اور پھر یوں بھی ہوا کہ کئی سو ایم کیو ایم کے کارکنوں اورمبینہ ٹارگٹ کلرز کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا جواب میں کئی پولیس والے بھی مارے گئے ۔ آج تک نہ کوئی کمیشن بنا،نہ حقائق کا پتا چل سکا۔ بڑی لمبی تاریخ ہے دوستو ، بہت سے پوشیدہ راز ہیں کہ آخرکیا ہوا ،ایک متوسط طبقہ، پڑھی لکھی قوم کے وارث ’’دہشت کی علامت‘‘ بن گئے اور پھر مارےگئے ۔ آج بھی خود ایم کیو ایم (پاکستان) کا دعویٰ ہے کہ کوئی 100کا رکن لاپتہ ہیں پانچ چھ سال سے ہر دوسرے روز اُن کے لواحقین آتے اور واپس چلے جاتے ہیں۔

اب یہ فیصلہ ایم کیو ایم کو کرنا ہے کہ وہ ’’روبوٹ‘‘ سیاست پر اکتفا کریگی یا کچھ مختلف۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2013ءمیں 8لاکھ کراچی میں ووٹ لے کر، گوکہ ایک قومی اسمبلی کی سیٹ ملی تھی، اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ بدقسمتی سے بانی متحدہ نے اس پر بھی اپنی فتح پر لیڈروں کو مبارک باد دینے کے بجائے جنرل ورکرز اجلاس میں بے عزت کر دیا۔ 8فروری کو پی ٹی آئی شہری سندھ کی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری مگر جتوا کسی اور کو دیا گیا۔ آخر اس طرح کا کھیل تماشا کب تک چلے گا۔ میرے خیال میں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کو تھوڑا سبق مولانا فضل الرحمان سےسیکھنا چاہئے جن کی ’’بیٹھک‘‘ حالیہ بحرانوں میں وہی منظر پیش کر رہی تھی جو کسی زمانے میں 90عزیز آباد کی بیٹھک کرتی تھی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ