جمعرات کی رات کچھ دیر چلنے کے بعد میرا ٹویٹر اکائونٹ دو روز تک بند رہا۔ اس کے بند ہونے سے جو کوفت محسوس ہواکرتی تھی بتدریج ختم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اس امر کو شکست خوردہ ذہن کے ساتھ تسلیم کرلیا ہے کہ ہماری مائی باپ سرکار ٹویٹر (جسے اب ایکس کہا جاتا ہے)کی وقتاََ فوقتاََ مگر طویل بندش کے ذریعے ہمارے طفلانہ اذہان کومضر خیالات سے محفوظ رکھے گی۔ امن وامان کا تحفظ بھی یقینی ہوجائے گا۔
یہ سوچتے ہوئے اگرچہ ذہن میں اکثر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ہمارے خطے اور خاص طورپر پنجاب میں انسانوں کی جبلت میں شامل درندگی کا بھرپور اظہار 1947ء کے برس ہوا تھا۔ قیام پاکستان کی وجہ سے اس برس لاکھوں انسانوں نے نقل مکانی کی۔ مذکورہ نقل مکانی کی بنیادی وجہ وہ لوٹ مار اور قتل عام تھا جس کے دوران ایک مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ دلوں میں نسلوں سے جمع ہوئے تعصبات کا جنونی وحشت کے ساتھ اظہار کیا تھا۔
ان دنوں انٹرنیٹ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ فیس بک اور ٹویٹر جیسے پلیٹ فارم بھی میسر نہیں تھے جو دورِ حاضر میں فتنہ وفساد پھیلانے کا کلیدی ذریعہ ٹھہرائے جاتے ہیں۔کبھی کبھار عطائیوں کی طرح خود کو ماہر سماجیات تصور کرتے ہوئے ماضی کی خانہ جنگیوں،نسلی وفرقہ ورانہ فسادات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ انسان بنیادی طورپر ہمیشہ سے جنگل کا باشندہ ہی رہا ہے۔ جنگلی جانور کی طرح وہ ریوڑ کی صورت رہنا پسند کرتا ہے اور اپنے ریوڑ کی حدود (Territory) بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار بھی۔
دانشوارانہ جگالی کی جانب بہک جانے کے بجائے اس موضوع کی جانب لوٹتا ہوں جس کا ذکر آج کے کالم میں کرنا چاہ رہا تھا۔ ٹویٹر کی بندش سے آغاز اس وجہ سے کیا کہ اتوار کی شب فون پر تھوڑی دیر کے لئے کھلا تو میں نے لیپ ٹاپ کھول لیا۔ اس کے ذریعے اس پر بنائے اکائونٹ کا پھیرا لگایا تو اچانک یہ احساس ہوا کہ بے شمار پاکستانی نہایت خوش ہوتے ہوئے امریکہ کے دوسری بار منتخب ہوئے صدر ڈونلڈٹرمپ کی ایک تقریر کو والہانہ انداز میں شیئر کئے چلے جارہے ہیں۔ جو وڈیو شیئر کی جارہی تھی وہ غالباََ کسی ایسی تقریر کا ابتدائیہ ہے جس کے ذریعے نو منتخب صدر اپنے حامیوں کو یہ بتارہا ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ نہایت سرعت سے کیا اقدامات لے گا۔ جو اقدام وہ لینا چاہ رہا ہے وہ سب ہی ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ سے حساب برابر کرنے کے متمنی سنائی دئے۔
’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کا تصور خلافت عثمانیہ کے دوران اجاگر ہوا تھا۔ اسے ’’دریں دولت‘‘ کہا جاتا تھا۔ انگریزی میں اس کے لئے State within a Stateکی اصطلاح استعمال ہوئی۔ آسان ترین لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ ریاست کے دائمی اداروں میں سے طاقتور ترین تصور ہوتی خفیہ ایجنسیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اپنے وسائل اور قوت کے بل پر وہ جمہوری طورپر ’’منتخب‘‘ ہوئے سربراہان کو بھی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ امریکہ کی ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی دشمن ہے۔ اس سے نفرت کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ٹرمپ امریکہ کی مسلح افواج کو افغانستان اور عراق پر مسلط کی جنگوں جیسے مزید ’’پنگوں‘‘ میں الجھانا نہیں چاہتا۔ ایک کاروباری آدمی ہوتے ہوئے وہ دنیا بھرمیں امن چاہتا ہے تاکہ کاروبار فروغ پائیں اور ہر سوخوشحالی اور امن کا راج ہو۔
مذکورہ سوچ پر یقین کرلیں تو ٹرمپ عدم تشدد کا دھوتی نہیں بلکہ سوٹ پہننے والا پرچارک نظر آتا ہے۔ امید باندھی جارہی ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی ٹرمپ روس اور یوکرین کی جنگ بند کروانا چاہے گا۔ امریکہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے چند نیک دل مسلمان یہ توقع بھی باندھے ہوئے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام بھی رکوادے گا۔
ٹرمپ بالآخر دنیا بھر میں امن پھیلانے کے قابل ہوتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب چند ماہ گزرنے کے بعد مل جائے گا۔ اس کی تقریر کے جو حصے مگر سوشل میڈیا پر پاکستانی دوستوں کی جانب سے والہانہ انداز میں وائرل کئے جارہے ہیں ان کے دوران ٹرمپ محض ان اقدامات پر توجہ مرکوز کرتا سنائی دیتا ہے جن کے ذریعے وہ ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کے چند میڈیا اداروں کے ساتھ تعلقات بے نقاب کرے گا۔ ٹرمپ کا اصرار ہے کہ ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ امریکی میڈیا میں اس کے مخالفت لکھاریوں اور تبصرہ نگاروں کو ایسا ’’جعلی مواد‘‘ پیش کرتی رہی جس کی بنیاد پر اسے کاروباری حوالوں سے بدعنوان اور عورتوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بدکردار بناکر پیش کیا گیا۔
امریکہ کے سیاسی حقائق اور وہاں کے میڈیا سے 1986ء کے برس سے بطور صحافی پیشہ وارانہ رابطہ رہا ہے۔ میرا مشاہدہ یہ دعویٰ کرنے کو مجبور کررہا ہے کہ امریکی میڈیا کا توانا تر حصہ ٹرمپ کی دھمکیوں سے ہرگز خائف نہیں ہوگا۔ اس کے کئی نمایاں نام بلکہ بہت بے چینی سے منتظر ہیں کہ ٹرمپ جلد از جلد اپنے عہدے کا حلف اٹھائے اور وہ اسے اپنی قوت مزاحمت دکھائیں۔ بہرحال اس تناظر میں جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔ فی الوقت حیرانی اس بات پر ہورہی ہے کہ بے شمار پاکستانی خواتین وحضرات ٹرمپ کی بڑھک بازی کے بارے خود کو اتنا شاداں کیوں محسوس کررہے ہیں۔ فرض کیا اس نے امریکی میڈیا میں گھس بیٹھے ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کے ’’لفافوں‘‘ کو بے نقاب کر بھی دیا تو اس سے ہمارے ہاں کی ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کے پاکستانی میڈیا میں مبینہ طورپر گھسے ’’لفافے‘‘ کیوں پریشان ہوں گے؟۔ ہمارے ہاں کے صحافی تو ویسے ہی عرصہ ہوا تھک ہار کر اپنی اوقات میں آچکے ہیں۔ٹرمپ مگر بھارت کے نریندر مودی اور روس کے صدر پوٹن کا ’’جگری یار‘‘ ہونے کا دعوے دار اور طلب گار بھی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اپنے ہاں کی ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کے ’’لفافوں‘‘ کو بے نقاب کرنے کے بعد وہ روس اور بھارت کے نمایاں ’’ذہن سازوں‘‘ کو بھی وہاں کی ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کی غلامی سے آزاد کروانا چاہے گا یا نہیں؟!
بشکریہ روزنامہ نواے وقت