’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش تھی‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’کیوں پاکستان کو کیا ہو گیا ؟‘‘ اسے اس جواب کی توقع نہیں تھی‘ وہ بڑی دیر تک میرے چہرے کی طرف دیکھتا رہا اور پھر ناراض لہجے میں بولا ’’کیا آپ کو نظر نہیں آرہا ملک کی کیا حالت ہو گئی ہے؟‘‘ میں اس کی ناراضگی سے ڈر گیا اور سنجیدگی سے پوچھا ’’میں آپ سے صرف یہ جاننا چاہتا ہوں آخر ملک کو کیا ہو گیا ہے؟سڑکیں کھلی ہیں‘ بازار اور مارکیٹیں چل رہی ہیں اور کسی چیز کی قلت بھی نہیں ہے‘ آخر مسئلہ کیا ہے؟‘‘ وہ بولا ’’آپ لاء اینڈ آرڈر دیکھ لیں‘ مہنگائی دیکھ لیں‘ حکمرانوں کی عیاشیاں دیکھ لیں۔
سپریم کورٹ کی حالت دیکھ لیں اور کل کوئٹہ میں بم دھماکا ہو گیا‘ کیا آپ کو ملک میںیہ دکھائی نہیں دے رہا؟‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر آہستہ سے عرض کیا ’’آپ کی بات درست ہے‘ بلوچستان کے حالات واقعی خراب ہیں‘ کوئٹہ میں بم دھماکا بھی ہو گیا اور وہاں لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر انھیں قتل بھی کر دیا جاتا ہے‘ سپریم کورٹ کے اندر بھی لڑائیاں چل رہی ہیں‘ حکمران طبقے کا قبلہ بھی ٹھیک نہیں ‘ مہنگائی بھی عام آدمی کی برداشت سے باہر ہے اور لاء اینڈ آرڈر بھی آئیڈیل نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے یہ تمام چیزیں تو دنیا کے کسی بھی ملک میں ٹھیک نہیں ہیں‘ آپ دنیا کا کوئی ملک بتا دیں جہاں جرم نہ ہوں‘ جہاں مہنگائی نہ ہو‘ جہاں کے عوام اپنے حکمرانوں سے مطمئن ہوں‘ جہاں سرکاری اداروں میں لڑائیاں نہ چل رہی ہوں۔
جہاں قتل و غارت گری نہ ہو اور جہاں ریاستی یونٹ ایک دوسرے سے نہ لڑ رہے ہوں‘ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے‘ وہاں ابھی الیکشن ہوا‘ پورے ملک کی انتظامیہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے کے لیے تیاری کر رہی ہے‘ پینٹا گان میں باقاعدہ میٹنگز ہو رہی ہیں کہ ہم ٹرمپ کے طوفان کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ امریکا کی سپریم کورٹ میں بھی تھرتھلی مچی ہوئی ہے اور کل سے نیویارک میں ہزاروں لوگ ٹرمپ ٹاور کے سامنے کھڑے ہو کر نئے صدر کو گالیاں دے رہے ہیں‘ امریکا‘ یورپ اور مڈل ایسٹ دو سال سے مہنگائی کی زد میں ہیں‘ آپ وہاں کے لوگوں سے پوچھیں‘ یہ کیسے گزارہ کر رہے ہیں‘ عوام اب سکینڈے نیویا کے حکمرانوں پر بھی اعتراض کر رہے ہیں اور پیچھے رہ گئی دہشت گردی تو آپ 29 جولائی کے برطانیہ کے فسادات دیکھ لیں۔
ایک برطانوی شہری نے تین برطانوی بچیوں کو چاقو سے قتل کر دیا اور اس کے بعد آدھے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے‘ ہجوم نے سیکڑوں دکانیں‘ گاڑیاں‘ گھراور عبادت گاہیں جلا دیں‘ برطانیہ کے 8 شہر دو ہفتے بند رہے اور پولیس کو نہ صرف لاٹھی چارج کرنا پڑا بلکہ آنسو گیس بھی چلانی پڑی‘ لوگوں کے گھروں کے دروازے توڑ کر ملزموں کو گرفتار کیا گیا‘ عدالت نے 13 سال کے لڑکوں کو بھی سزا دی‘ امریکا کے پچھلے الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتیوں نے کیپیٹل ہل پر حملہ کر دیا تھا‘یہ کانگریس اور سینیٹ کی عمارتوں میں داخل ہو گئے تھے اور سرکاری دفتر توڑ پھوڑ دیے تھے‘ روس میں چند ماہ قبل داغستان میں مسلمان آبادی پر خوف ناک حملے ہوئے تھے اور ان میں درجن کے قریب پولیس اہلکار بھی مارے گئے تھے۔
آپ یوکرائن اور غزہ کو بھی دیکھ لیں‘ غزہ میں ایک سال میں لاکھ کے قریب لوگ شہید اور زخمی ہو چکے ہیں‘ یوکرائن میں اڑھائی سال سے جنگ چل رہی ہے‘ پورا ملک برباد ہو گیا‘ جاپان دنیا کا پرامن ترین ملک تھا لیکن وہاں کے سابق وزیراعظم کو کسی نے گولی مار دی‘ جاپان میں اسلحے پر پابندی ہے لیکن ایک نوجوان نے گھر میں پستول بنا کر وزیراعظم کو گولی سے اڑا دیا لہٰذا کہنے کا مطلب یہ ہے پاکستان باقی دنیا سے مختلف نہیں ہے اگر دنیا ان واقعات کے بعد ختم نہیں ہوئی تو پاکستان کو بھی کچھ نہیں ہو گا ہم بلاوجہ پریشان رہتے ہیں‘‘۔
نوجوان مجھے حیرت سے دیکھتا رہا‘ میں خاموش ہوا تو وہ غصے سے بولا ’’آپ حکومت کی نالائقی کو جسٹی فائی کر رہے ہیں‘ آپ کو خان نظر نہیں آ رہا‘ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے‘ اس بے چارے کو بے گناہ جیل میں رکھا ہوا ہے اور اسے وکیلوں تک سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی‘‘ میں نے غور سے اس کی بات سنی اور پھر ہنس کر جواب دیا ’’آپ اپنی شہادت کی انگلی ماتھے پر رکھیں‘‘ اس نے رکھ دی‘ میں نے عرض کیا’’ہمارا سب کچھ یہاں ہے‘ ہم یہاں سے مسلمان‘ عیسائی‘ یہودی‘ ہندو اور لادین ہوتے ہیں‘ ہم یہاں سے ہی کام یاب اور ناکام ہوتے ہیں۔
ہم یہاں سے ہی ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ اکائونٹنٹ‘ کھلاڑی اور سیاست دان بنتے ہیں اور ہم یہاں سے ہی اداس اور خوش ہوتے ہیں‘دنیا کیسی ہے اس کا فیصلہ بھی یہیں سے ہوتا ہے‘ آپ یقین کریں ہمارے اس ساڑھے تیرہ سو سی سی کے دماغ کے باہر کچھ بھی نہیں ‘ دھوپ اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن دنیا میں اس وقت لاکھوں ایسے لوگ ہیں جو دھوپ میں نہیں نکل سکتے‘ دھوپ ان کی جلدکو جلا دیتی ہے اور یہ چیخنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ دنیا میں کروڑوں لوگ دودھ نہیں پی سکتے‘ کروڑوں لوگوں کو اندھیرے سے ڈر لگتا ہے اور کروڑں سیب‘ کیلا یا مالٹا نہیں کھا سکتے‘ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے مالٹا‘ کیلا‘ سیب‘ دودھ‘ اندھیرا اور دھوپ بری چیزیں ہیں اور یہ ختم ہو جانی چاہییں؟ جی نہیں‘ ان نعمتوں کا کوئی قصور نہیں‘ قصور یا فالٹ لوگوں میں ہے‘نعمتوں میں نہیں‘ بالکل اسی طرح باہر کی دنیا بھی معمول کے مطابق چل رہی ہے۔
خرابی صرف ہمارے دماغ میں ہے لہٰذا آپ باہر کی دنیا کو بدلنے کی کوشش نہ کریں اپنے آپ کو تبدیل کرلیں‘ اپنے اس ساڑھے تیرہ سو سی سی کے دماغ پر توجہ دیں‘ آپ کو یہ دنیا جنت نظر آئے گی لیکن آپ گلاب کے پھولوں پر توجہ دینے کے بجائے کانٹے گن رہے ہیں‘ گلاب دیکھیں‘‘ نوجوان کو میری بات سے اتفاق نہیں تھا‘ اس کا کہنا تھا‘آپ اپنا فلسفہ بے غیرتی اپنے پاس رکھیں‘ آپ فطرتاً پٹواری ہیں‘ آپ کے اندر حکمرانوں کی محبت ابل رہی ہے‘ آپ جنرل عاصم منیر سے خوف زدہ ہیں اور آپ خان کے خلاف ہیں وغیرہ وغیرہ‘ میں پیار سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ خاموش ہوا تو میں نے عرض کیا ’’میرے بھائی میں بھی اسی طرح پریشان رہا کرتا تھا‘ مجھے بھی بے بسی کا احساس ہوتا تھا‘ میں بھی غصے سے ابلتا رہتا تھا لیکن آپ یقین کرو میں نے پھر اپنے دماغ پر کام شروع کر دیا‘ میں نے یہاں سے‘ میں نے اس کے ساتھ ہی اپنی انگلی ماتھے پر رکھی‘ ماتھے کو بجایا اور پھر کہا ’’میں نے یہاں سے خود کو بدل لیا اور اب مجھے کوئی مسئلہ مسئلہ محسوس نہیں ہوتا‘ مجھے اب اپنے دائیں بائیں بکھری خرابیاں بھی اچھی محسوس ہوتی ہیں مثلاً آج کل لاہور کے اندر سموگ ہے۔
مجھے یہ پریشانی ضرور ہے ہماری حکومت اس کا مستقل حل تلاش کیوں نہیں کرتی اگر برطانیہ‘ جاپان‘ چین اور جرمنی نے اس کا حل نکال لیا تھا‘ اگر بھارت اس کے مقابلے پر لگا ہوا ہے تو پھر ہم میں کیا کمی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ اطمینان بھی ہے یہ دو ماہ کا مسئلہ ہے‘ دسمبر میں بارشیں شروع ہو جائیں گی اور سموگ ختم ہو جائے گی‘ دوسرا لوگ اب خود بھی اس کا حل تلاش کر رہے ہیں‘ لوگوں نے ائیرپوری فائرز لے لیے ہیں‘ یہ مہینے ڈیڑھ مہینے کے لیے سموگ فری شہروں میں بھی جا رہے ہیں اور یہ دھواں پھیلانے والی مشینیں بھی بند کر رہے ہیں‘ مجھے یقین ہے حکومت بھی ایک آدھ سال میں اس کا حل تلاش کر لے گی اور لوگ بھی کوئی نہ کوئی بندوبست کر لیں گے‘ یہ مسئلہ عارضی ہے چناں چہ اس کے بارے میں سوچ کر اپنی اینگزائٹی بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں اور پیچھے رہ گیا خان‘‘ میں نے لمبا سانس لیا ’’میں ذاتی طور پر اس سے بہت متاثر ہوں‘ میں اس کی گیو اپ نہ کرنے کی فطرت کا فین ہوں۔
اس نے جیل برداشت کر کے بھی نئی تاریخ رقم کر دی اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں کے زیادہ قریب بھی ہو رہا ہے‘ اگلا الیکشن جب بھی ہو گا وہ خان کا ہو گا لیکن جہاں تک موجودہ صورت حال کا تعلق ہے تو اس کا صرف ایک شخص ذمے دار ہے اور وہ ہے خود خان‘ اسے کس نے کہا تھا یہ قومی اسمبلی سے استعفے دے دے اور پنجاب اور کے پی کی حکومت توڑدے‘ عدم اعتماد کے بعد یہ گھر میں بیٹھا تھا‘ اسے کسی نے گرفتار نہیں کیا تھا لیکن اس نے احتجاج کر کر کے‘ سڑکیں بند کر کر کے ریاست کو گرفتاری پر مجبور کر دیا اور یہ اس پر مقدمے پر مقدمہ بناتی بھی چلی جائے‘ فروری کے الیکشن کے بعد بھی اس کے پاس معاملات ٹھیک کرنے کا موقع تھا‘ یہ سسٹم کو چلنے دیتا‘ کے پی میں اچھا اور قابل چیف منسٹر لے کر آتا‘ ریاست کے ساتھ مذاکرات کرتا‘ باہر آتا اور آئینی اور قانونی جدوجہد کرتا اور سال چھ ماہ بعد یہ وزیراعظم ہوتا لیکن یہ ایک خونی انقلاب کے ذریعے اقتدار میں آنا چاہتا ہے۔
یہ 1971کی طرح فوج کو شکست دینا چاہتا ہے اور تمام سیاست دانوں کو پھانسی پر لٹکانا چاہتا ہے‘ اسے اس کی اجازت کون دے گا؟ عمران خان اگر جیل میں ہے تو یہ اپنی وجہ سے ہے‘ اس کا ذمے دار یہ خود ہے‘ یہ اگر آج بھی چاہے تو معاملات سلجھ سکتے ہیں‘‘ نوجوان کا پارہ آسمان کو چھونے لگا اور وہ چلا کر بولا ’’آپ جیسے بے حس پٹواری اس ملک کو آزاد نہیں ہونے دے رہے‘ آپ لوگ ۔۔۔ہیں‘‘ میں نے انگلی سے اس کے ماتھے پر دستک دی اور ہنس کر کہا ’’بیٹا پاکستان یہاں ہے آپ جب تک اسے یہاں سے ٹھیک نہیں کریں گے یہ ٹھیک نہیں ہو گا‘ آپ خواہ جتنا چاہیں زور لگا لیں‘‘۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس