کتنی محنت ہورہی تھی۔ رات دن ایک ہوگئے تھے۔ دو تہائی اکثریت مل گئی۔ 26ویں منظور ہو گئی تو ملک کے دن پھر جائیں گے۔
وہ ترمیم منظور ہو چکی، اٹھائے گئے لوگ گھروں میں واپس ہوچکے۔ مبارکبادیں دی جاچکیں لیکن ایسے کارناموں کے بعد چہرے جس طرح ترو تازہ ہوتے ہیں، پیشانیاں جس طرح تمتماتی ہیں، ایسے منظر کہیں نظر نہیں آرہے۔ ایک دریا بڑی مشکل سے عبور کیا ہے۔ اب 27 ویں دریا کا سامنا ہے۔
کٹ گیا دن کا دہکتا ہوا صحرا بھی تو کیا
رات کے گہرے سمندر میں اترنا ہے ابھی
اللہ تعالیٰ جسے چاہے عزت دیتا ہے۔ جسے چاہے ذلت۔عدالت عظمیٰ بلکہ پوری عدلیہ کا گراف 24 اور 25کو جس طرح پاتال میں گر رہا تھا۔ 28 کو وہ سماں نہیں رہا تھا، اتنی جلد پستی سے بلندی۔ یہ کسی ایک بندے کی آمد کی بشارت تھی۔ ان کی نوٹیفکیشن پارلیمنٹ کے ذریعے ہوئی، بالادستی قائم ہوئی، پارلیمنٹ محافظ، قائد ایوان اور ارکان کو اپنے ادارے کے وقار کا خیال نہیں تھا۔ اپنے سرپرستوں کے اختیارات میں اضافہ مقصود تھا، سو وہ پورا ہو گیا لیکن اپنے محافظ کو اپنے اس عظیم ادارے کے وقار، عظمت رفتہ کا خیال تھا۔ اپنے سینئرز کا حفظ مراتب پیش نظر تھا۔ اس لیے اس نے تنہا پرواز کی بجائے سب کو ساتھ لے کر فارمیشن بنائی اور پرواز اختیار کی۔ واہگہ سے گوادر تک سب کی نظریں پھر اس عمارت پر مرکوز ہو گئیں۔ سب کو یقین تھا کہ اب اس خانقاہ سے کوئی خوشخبری مل سکتی ہے۔ صرف چند گھنٹوں کے فرق سے دنیا نے دیکھ لیا کہ ایک چیف پورے ادارے کی عزت خاک میں ملا سکتا ہے اور ایک دوسرا چیف چاہے سنیارٹی کے بر عکس آیا ہو، اگر حمیت ہے اور پندار ہے، تو وہ اس زمیں بوس کو پھر فلک بوس کرسکتا ہے۔
قومیں زوال سے ہمکنار ہوتی رہی ہیں۔ لیکن کسی نہ کسی کو تاریخ نے یہ ذمہ داری سونپی ہے کوئی چنگاری اس خاکستر میں آجاتی ہے کہ راکھ پھر روشن ہو جاتی ہے، شعلہ پھر بھڑکنے لگتا ہے۔ اس وقت امریکہ میں بھی اپنے وقار کی بحالی کی جنگ جاری ہے۔ اس سے پہلے 2012ءمیں مشہور امریکی اداکار کلنٹ ایسٹ وڈ کی آواز میں کروڑوں امریکیوں نے سنا۔ ’’یہ امریکہ میں ہاف ٹائم ہے‘‘۔ کھیل کے دوران جب ایک پالا (ہاف) گزر جاتا ہے۔ اور دوسرا پالا ہونے والا ہوتا ہے۔ اس میں ایک ٹیم یہ عزم کرتی ہے کہ ہمیں ہاری ہوئی بازی جیتنی ہے۔
ایک امریکی صنعت کار نے اس ولولۂ تازہ دینے والے کمرشل کے اخراجات اپنے ذمے لیے۔ امریکہ کو ہر صورت جیتنا چاہئے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے۔ ’’ہاف ٹائم ہے۔ دونوں ٹیمیں اپنے اپنے ’لاکر رومز‘ میں تبادلہ خیال کر رہی ہیں۔ دوسرے ہاف میں کیا کریں کہ بازی جیت جائیں۔ اب امریکہ میں بھی ہاف ٹائم ہے۔ لوگ بے روزگار ہیں۔ یہ تکلیف دہ ہے، وہ سب سوچ رہے ہیں کہ ہمارا روزگار کیسے بحال ہوگا، اچھا وقت کیسے آئے گا، ہم سب خوف زدہ ہیں کہ یہ کھیل نہیں ہے، ڈیٹرائٹ کے لوگ نہیں جانتے کہ کیا ہوا ہے کیونکہ وہ سب کچھ کھوچکے ہیںلیکن وہ پھر ہمت پکڑ رہے ہیں۔ یہ موٹروں کا شہر دوبارہ مقابلے کیلئے تیار ہے۔ میں نے بہت کٹھن دور دیکھے ہیں۔ میری زندگی میں بڑی گھٹنائیں آئی ہیں۔ ایسی گھڑیاں جب ہم نے ایک دوسرے کو سمجھنا چھوڑ دیا تھا۔ ایسا لگتا تھا ہمارے دلوں نے دھڑکنا بند کر دیا ہے۔ اختلافات کی گرد، نفرت کی دھول اور الزمات کی بوچھاڑ نے ہمیں آگے دیکھنے سے ہی محروم کردیا تھا لیکن ان آزمائشوں کے بعد ہم اکٹھے ہوئے۔ یہ جانا کہ کیا درست ہے پھر درست سمت قدم اٹھائے ہم نے مشکل وقت میں راستہ نکالا۔ پھر ایک سیدھا راستہ متعین کیا۔ اب صرف نصب العین یہ ہے کہ اصل معاملہ ہے کہ آگے کیا ہے۔ جو گزر گیا سو گزر گیا، ہم ماضی سے کیسے نکلیں، ہم آگے اکٹھے کیسے بڑھیں، ہم جیتیں کیسے، ڈیٹرائٹ ہمیں دکھارہا ہے کہ یہ ہوسکتا ہے، جو ڈیٹرائٹ والوں کیلئے اچھا ہے۔ ہمارے لیے بھی اچھا ہے۔ اس ملک کو ایک تھپیڑے سے خاموش نہیں کیا جا سکتا۔ ہم دوبارہ آگے آ سکتے ہیں اور جب ہم یہ کر رہے ہوں گے تو پوری دنیا ہمارے انجنوں کی گھن گرج سنے گی۔ ہاں امریکہ میں یہ ہاف ٹائم ہے۔‘‘ (’’امریکہ ایسا ہوتا تھا‘‘۔ تھامس فرائیڈمین۔ میکائل مینڈل)
کیسے ولولہ انگیز الفاظ ہیں۔ آپ کے ضمیر کو جھنجھوڑتے۔ سپریم کورٹ دکھا رہی ہے کہ ہم ملبے سے اٹھ سکتے ہیں، اپنی پستیاں پیچھے چھوڑ سکتے ہیں، جو ہمارے معزز ججوں کیلئے اچھا ہے، سچ ہے، وہ ہمارے لیے بھی سچ ہے۔ پاکستان ایک عظیم ریاست ہے، پاکستانی ایک عظیم قوم ہیں، واقعی، پاکستان میں یہ ہاف ٹائم ہے۔ اس وقفے میں ہم یہ سوچ رہے ہیں، ہماری حمیت کیسے گھر میں واپس آسکتی ہے۔ ہم جو سچ، شائستگی، انصاف، اصول پرستی، قواعد و ضوابط، قانون کے یکساں نفاذ کی بازی ہار چکے ہیں۔ اگلا ہاف ہمیں مل رہا ہے۔ اگلی اننگز ہمیں مل رہی ہے۔ ہم کیسے اپنی عظمت واپس لا سکتے ہیں۔ لوگ پھر بر سر روزگار ہو سکتے ہیں۔ مینو فیکچرنگ پھر شروع ہو سکتی ہے۔ انصاف پھر سستا اور عام ہوسکتا ہے۔
2022 کے تاریک دنوں سے جن اندھیروں نے ہم پر غلبہ پایا ہے۔ ہم ایک صبح حسیں کیلئے گرد جھاڑ کر اٹھ سکتے ہیں۔
عدلیہ نے اپنے وقار کی بحالی کیلئے سفر شروع کردیا ہے۔ یہ سفر وہ تنہا بھی شروع کرسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اب ’نشاۃ ثانیہ‘ شروع ہونے والی ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
یہ فل کورٹ، یہ جرگہ، یہ اجتماع، یہ اسمبلی ہی وقت کا تقاضا ہے۔ والدین گھروں میں فل کورٹ کریں، سارے ریاستی ادارے سر جوڑ کر بیٹھیں۔
فرد قائم ربط ِملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
قائد اعظم آواز دے رہے ہیں۔ اتحاد، ایمان، نظم و ضبط۔ اقبال کی پکار سن لیں۔ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے، زندگی جاوداں ہے، ہر دم جواں ہے، زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ، جوئے شیرو تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی۔
محکوم خواب سے جاگ چکے ہیں۔ اب انہیں حکمرانوں کی ساحری سلا نہیں پارہی ہے۔ نشاۃ ثانیہ، انگڑائیاں لے رہی ہے، سوشل میڈیا نے ہر چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے۔ سب کے اصل کردار سب کے سامنے ہیں۔ وقت یہی ہے، جب ہم ایسی مملکت کے قیام کا آغاز کرسکتے ہیں۔ جو اکیسویں صدی کی آئندہ دہائیوں کے تقاضے پورے کرے۔ سب کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ موج دریا میں ہی وجود رکھتی ہے۔ دریا سے باہر جو اچھلتی ہے۔ زمیں میں جذب ہوکر ریت بن جاتی ہے۔ مداری تماشے دکھاکر چلے گئے۔ رسوائیاں ان کے ساتھ چل رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ ’ہاف ٹائم‘ ہے۔ اگلا ہاف ٹائم عوام کا ہے۔ اگلی اننگز عام پاکستانیوں کی ہے۔