فیض اور سازشِ اغیار…حامد میر


ملزمان نے اس قصے کو سازش اغیار قرار دیا لیکن ریاست کا دعویٰ تھا کہ ایک سیاسی جماعت نے چند فوجی افسران کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کو آج بھی پاکستان میں فوجی بغاوت کی پہلی کوشش قرار دیا جاتا ہے جس کی ابتدائی تفتیش خود فوج کے سربراہ نے کی تھی۔ دلچسپ پہلو یہ تھا کہ سازش میں شریک فوجی افسران پر آرمی ایکٹ کے تحت کسی فوجی عدالت میں نہیں بلکہ سویلین عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔اس مقدمے میں کل پندرہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی۔ ان میں گیارہ فوجی افسران اور چار سویلینز تھے جن میں انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔ اس مقدمے کو راولپنڈی سازش کیس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس مقدمے کا پس منظر اور پیش منظر پاکستانی سیاست کے طالب علموں کیلئے بڑا اہم ہے۔ جس جنرل ایوب خان اور سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا نے اس سازش کی خود تفتیش کی چند سال کے بعد ان دونوں نے مل کر پاکستان میں پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا۔ عدالت میں ملزمان کا دفاع کرنے والے ایک وکیل حسین شہید سہروردی بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ بعد ازاں جنرل ایوب خان کے حکم پر ان کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا جو کسی عدالت میں ثابت نہ ہوسکا ۔جس وزیر اعظم کی حکومت ہٹانے کیلئے یہ مبینہ سازش تیار کی گئی تھی ان کا نام لیاقت علی خان تھا۔ انہوں نے 9مارچ 1951ء کو خود اس سازش کا انکشاف کیا۔ سازش کے مرکزی کردار پاکستانی فوج کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل اکبر خان تھے۔ مقدمے کی کارروائی میں ان کے خلاف جو شواہدپیش کئے گئے ان کے مطابق لیاقت علی خان کو قتل کرنے کی بجائے صرف حکومت سے ہٹانا تھا۔ فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو بھی صرف ان کے عہدے سے ہٹانا تھا اور فوجی کونسل کے ذریعےملک چلانا تھا۔ قانون کے مطابق سازش میں ملوث فوجی افسران کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے تھا لیکن وزیر اعظم لیاقت علی خان نے فوجی بغاوت کے ملزمان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی بجائے دستور ساز اسمبلی سے ایک نیا قانون منظور کروا لیا جسے راولپنڈی سازش خصوصی ٹربیونل ایکٹ 1951ء قرار دیا گیا۔ جب اس قانون کا مسودہ ایوان میں پیش کیا گیا تو اپوزیشن نے اعتراض کیا کہ یہ دستور ساز اسمبلی ہے مقننہ نہیں ہے یہ اسمبلی اس قانون کو منظور نہیں کر سکتی لیکن حکومت نے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر قانون کو منظور کروا لیا، جس کے تحت مقدمے کی کارروائی اعلیٰ عدلیہ کے تین ججوں نے چلانی تھی۔ سوال پیدا ہوا کہ فوجی بغاوت کے ملزمان پر فوجی عدالت میں مقدمہ کیوں نہیں چلایا جا رہا؟ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے پاس اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا لیکن عام تاثر یہ تھا کہ دستور ساز اسمبلی سے منظور کردہ عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی سزا کو کسی اور عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حکومت کا خیال تھا کہ ملزمان کو پھانسی کی سزا ملے گی اور انہیں پھانسی کی سزا دلوانے کیلئے ناصرف کچھ علماء سے فتوے جاری کرائے گئے بلکہ کئی اخبارات نے پھانسی کے حق میں اداریے بھی لکھے۔خصوصی ٹربیونل میں مقدمے کی سماعت جاری تھی کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران قتل کر دیا گیا۔ جس وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے خلاف راولپنڈی سازش کا انکشاف کیا تھا وہ راولپنڈی میں قتل ہو گیا، جس دستور اسمبلی سے ملزمان کے ٹرائل کیلئے قانون منظور کرایا گیا اس اسمبلی کو گورنر جنرل غلام محمد نے 1954ء میں خود ہی توڑ دیا۔ حکومت کو گرفتار ملزمان کو سزا دلوانے کیلئے دو وعدہ معاف گواہوں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔ یہ دونوں فوجی افسران تھے لیفٹیننٹ کرنل محی الدین صدیق راجہ اور میجر یوسف سیٹھی نے ٹربیونل میں بیان دیا کہ میجر جنرل اکبر خان نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیارکی اور اس سازش میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل سید سجاد ظہیر اور صحافی و شاعر فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔وعدہ معاف گواہوں کے بیانات کے باوجود کسی ملزم کو پھانسی یا عمر قید کی سزا نہ سنائی جاسکی۔چار چار سال قید کی سزائیں سنائی گئیں اور جب دستور ساز اسمبلی توڑ دی گئی تو ملزمان نے عدالتوں میں درخواستیں دائر کیں کہ جس اسمبلی نے ٹربیونل بنایا وہ اسمبلی ختم ہو چکی لہٰذا ملزمان کو ضمانتیں مل گئیں۔ اس مقدمے کے دو ملزمان کرنل حسن خان اور کیپٹن ظفر اللہ پوشنی نے اپنے ایام اسیری پر کتابیں لکھیں اور مقدمے کو جھوٹا قرار دیا۔ ظفر اللہ پوشنی نے اپنی انگریزی تصنیف PRISON INTERLUDEمیں لکھا کہ 23فروری 1951ء کی ایک رات دوستوں کی ایک محفل میں حکومت کے خلاف بغاوت کی ایک تجویز ضرور سامنے آئی لیکن فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر نے اس غیر جمہوری عمل کی مخالفت کی جس کے بعد میجر جنرل اکبر خان نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ خود فیض صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ فوج میں کام کر چکے تھے۔ کئی فوجی افسر اُن کے دوست تھے اُن فوجی دوستوں نے خود ہی ایک منصوبہ تیار کیا اور پھر خود ہی اسے مسترد کر دیا لیکن حکومت ان افسران سے خفا تھی کیونکہ یہ کشمیر پالیسی کے ناقد تھے لہٰذا انہیں راستے سے ہٹانے کیلئے راولپنڈی سازش کیس گھڑا گیا۔ فیض کو اس مقدمے میں پھنسانے کی وجہ پاکستان ٹائمز میں ان کے اداریے تھے گرفتاری نے فیض صاحب کے مقام و مرتبے کو کم کرنے کی بجائے اس میں مزید اضافہ کر دیا۔ جیل میں انہوں نے جو شاعری کی اس میں اصلی بغاوت نظر آنے لگی۔ حیدر آباد جیل میں وہ سب قیدیوں کے ساتھ مل کر یہ ترانہ گاتے تھے۔

دربار وطن میں جب اک دن سب جانیوالے جائینگے

کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے، کچھ اپنی جزا لے جائینگے

اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

جب تخت گرائے جائینگے، جب تاج اچھالے جائینگے

فیض کی شاعری میں مزاحمت اور بغاوت کا رنگ جیل میں جانے کے بعد گہرا ہوا۔ راولپنڈی سازش کیس کو سچا ثابت کرنے کیلئے ایک سابق بیوروکریٹ حسن ظہیر نے سرکاری ریکارڈ کی مدد سے ایک کتاب بھی لکھ ڈالی لیکن فیض نے کہا۔

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری

پاکستان کی تایخ یہی بتاتی ہے کہ غیر ملکی سازشوں کا شور مچانے والی حکومتیں دراصل خود کسی نہ کسی سازش کا حصہ بنتی ہیں اور جو اسمبلیاں مخالفین کو سزا دلوانے کیلئے قانون بناتی ہیں وہ اسمبلیاں اپنا تحفظ بھی نہیں کر پاتیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ