امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 20 جنوری کو نسل پرستی کے خلاف امریکہ کے ‘وائٹ ہاؤس’ میں ایک بار پھر جلوہ گری سے پہلے ہی ہر طرف خوب زور و شور ہے۔ وہ ایک طرف وائٹ ہاؤس میں حالیہ دہائیوں کے سب سے زیادہ ‘کھلی ڈھلی’ قسم کے نظریاتی اور عملی قسم کی ‘وائٹ’ تمناؤں کے صدر کے طور پر براجمان ہوں گے تو دوسری جانب ایک ایسے “منفرد” امریکی صدر ہوں گے کہ خود امریکہ کے یورپی و غیر یورپی اتحادی بھی ان سے لرزہ بر اندام ہونے کے اندیشوں میں مبتلا نظر آئیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی یہی انفرادیت ہے کہ وہ ہر ایک کے لیے ایک واضح ایجنڈا رکھتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے فلوریڈا کے ‘پام بیچ’ پر حالیہ نیوز کانفرنس میں ظاہر کیا ہے۔ وہ واضح طور پر کسی کو پانے، کسی کو دبانے، کسی کو چبا جانے اور کسی کو کھا جانے کا ارادہ لیے ہوئے آ رہے ہیں۔ میکسیکو تو میکسیکو رہا کینیڈا ‘الامان الحفیظ’ پکارتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
گرین لینڈ کا ننھا جزیرہ اپنے نام کی طرح سبز نرم چارے کی مانند لگتا ہے۔ اسی لیے اسے ٹرمپ نے ہنہناتے ہنہناتے ہوئے کم از دو مرتبہ نرم چارے اور تر نوالے کی طرح دیکھا ہے۔ اپنے بڑے صاحبزادے ‘ڈان جونیئر’ کو بھی جائزہ مشن پر روانہ کرنے والے ہیں۔ ادھر ڈنمارک کی قیادت کے نزدیک ان کا ‘گرین لینڈ’ برائے فروخت نہیں ہے’ تو نہ سہی، خرید لینے کی فراخدلانہ پیش کش تو گاجر کی صورت میں تھی، گاجر سے کام نہیں بنے گا تو دوسرا راستہ بھی تو موجود ہے۔ آخر دنیا کے گوشے گوشے میں بٹھائے ہوئے، بسائے ہوئے اور جمائے ہوئے امریکی فوجی کس مرض کی دوا ہیں۔
امریکہ کے جگہ جگہ موجود فوجی اثاثوں پر پہلا حق تو انہی علاقوں کا ہونا فطری ہے۔ کیا ضرورت پڑنے پر بھی ڈونلڈ ٹرمپ ان اثاثوں کو استعمال میں لانے لگے تو کیا کوئی روکنے کی جرات کر سکے گا۔ گرین لینڈ تو ویسے ہی نرم چارے کی طرح ہونا چاہیے۔
امریکی نو منتخب صدر نے دنیا بھر میں امریکی بالا دستی کے لیے بروئے کار رہنے والے نیٹو اتحادیوں کو بھی ایک مرتبہ پھر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ فرانس اور جرمنی نے چھ نومبر کو ایک اعلیٰ سطح کا ہنگامی اجلاس کیا۔ مقصد واضح تھا کہ ٹرمپ کی جیت کے بعد ان دونوں پر کیا اثرات ہوں گے، نیٹو کو کن مضمرات کا سامنا ہو گا۔ دیکھا جائے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت کا ڈونلڈ ٹرمپ اعلیٰ ترین شاہکار ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک خالص کاروباری شخصیت ہیں۔ وہ آنجہانی جمی کارٹر نہیں کہ مونگ پھلیوں کے چند دانوں پر قناعت کر کے بیٹھے رہتے۔ ایک بڑے اور کامیاب کاروباری کے طور پر وہ دوستیاں بنانے کے چکر میں پھنسنے کا نہیں بلکہ دوستیاں خریدنے کا مزاج رکھتے ہیں۔ ان کی اپنے اتحادیوں یا نیم اتحادیوں کے لیے بھی یہی تاجرانہ ذہنیت ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ اس لیے بہت سے کاروباریوں کی طرح وہ یہ ‘اپروچ’ رکھتے ہیں کہ ‘گھوڑا گھاس سے دوستی کر لے گا تو کھائے گا کیا۔’
بلاشبہ نیٹو اتحادی امریکہ کے عالمی طاقت بننے اور پوری دنیا میں چھا جانے کے لیے ہر جگہ پائیدان کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن جس طرح امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک صدارتی مدت کے وقفے کے ساتھ ایک بار پھر صدر منتخب کرنا ضروری خیال کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کو ڈونلڈ ٹرمپ جیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ فطری تقاضا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی دنیا کو پچھلے ساٹھ ستر برسوں والے امریکہ کی جگہ ایک نئے رنگ ڈھنگ کا امریکہ دینا چاہیں گے۔ اس امریکہ کا ایک چہرہ گرین لینڈ کے لیے سامنے آیا ہے۔ میکسیکو کے لیے پہلے ہی ڈونلڈ چہرہ کرا چکے ہیں اور کینیڈا کو بھی انہوں نے نئی و خالی دیدی ہے۔ جبکہ نیٹو اتحادی انہیں پہلے دور صدارت میں جتنا سمجھ گئے تھے اب دوسرے دور صدارت میں اس سے کہیں زیادہ سمجھ جائیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ہوتے ہوئے امریکہ کس روپ میں دنیا کے سامنے ہوگا۔ اس کا ایک اظہار سابق امریکی سفیر اور ‘اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک’ کے رکن ڈینیل فرائڈ سے پوچھ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ 19ویں صدی کے استعمار کے طور پر سامنے ہو گا۔ گرین لینڈ پر قبضے کی صورت میں نیٹو برباد ہو جائے گا اور ہمارے اور روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان کچھ فرق نہیں رہے گا۔
صدر ٹرمپ اور امریکہ کی یہ حیثیت یا صورت تو اپنے یورپی اتحادیوں اور پڑوسیوں کے لیے ہو گی اور اس تفریق کے بغیر ہوگی کہ پڑوسی کون ہے اور کس خطے میں موجود ہے کیونکہ امریکہ کو دنیا کا بڑا دنیا کے تقریباً ہر ملک کا پڑوسی مانتا ہے کہ امریکہ نے اپنے ہتھیاروں، فوجی اثاثہ جات اور فوجی نفری کی صورت دنیا کے تقریباً ہر چوراہے میں اپنی دنیا آباد کر رکھی ہے، اپنی حویلی سجا رکھی ہے۔
لیکن جو چہرہ ڈونلڈ ٹرمپ نے خود اپنا اور امریکہ کا مشرق وسطیٰ کے لیے دکھانا چاہا ہے وہ ایک آتش بردار کا ہی نہیں جہنم بردار کا چہرہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے محض چند ہفتے قبل کہا تھا کہ وہ دنیا سے جنگوں کا خاتمہ کردیں گے۔ فلسطینی تحریک مزاحمت حماس اور دوسروں کو شعلہ بار لہجے میں کہا ہے کہ اگر 20 جنوری سے پہلے اسرائیلی یرغمالی رہا نہ کیے تو مشرق وسطیٰ میں جہنم کے دروازے کھل جائیں گے۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ مشرق وسطیٰ میں جہنم کے دروازے کھولنے کے لیے امریکہ سامنے آ چکا ہو اور مشرق وسطیٰ کے چھوٹے بڑے اور پیارے پیارے راج دلارے ملکوں کے دروازوں کو آگ چھو کر نہ جائے۔ وہ آگ اور جہنم ہی کیا جس کے اثرات اور شعلے اڑوس پڑوس کو لپیٹ میں نہ لیں۔ اس لیے خبر رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگر آگ کی برسات کے ساتھ آ رہے ہیں تو حماس اور غزہ میں تو جو کچھ جلنا تھا جل کر راکھ ہو چکا ہے اب اس نئی اور ہمہ گیر آگ کو نئے اندوختے اور ایندھن کی ضرورت ہو گی۔
خوش قسمتی کہیے یا اتفاق مشرق وسطیٰ کے اندوختے اور ایندھن پر تو امریکہ کی پہلے سے ہی گہری نظر ہے۔ یہ ایندھن کی صورت میں زمین دوز ہو یا اندوختے کی صورت میں فلک بوس امریکہ کی نظر میں خیرہ کرتا رہتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کے لیے یہ ‘ون لائنر’ کوئی ایسا انوکھا اور اجنبی بھی نہیں ہے۔ غزہ کی پٹی تو پہلے ہی امریکی مدد سے ملبے اور راکھ کا ڈھیر بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ لبنان، شام کو بھی خاکستر کرنے کی مہم آگے بڑھ چکی۔ یمن کی بربادی ہو چکنے کا بھی پورا خطہ گواہ ہے۔ عراق کو تباہی کے ہتھیاروں کے نام پر تباہ کیا جا چکا ہے۔
ایران کے لیے مناسب وقت کا انتظار ہے۔ افغانستان اور پاکستان کو باہم دست و گریبان کرنے میں مزید کسی کاوش کی ضرورت نہیں۔ تو باقی چند مملکتیں موجود ہیں جن کے ہاں اندوختے اور ایندھن کی خوب فراوانی ہے۔ ایسے میں امریکی جہنم کے دروازے مشرق وسطیٰ میں کھول دینے کا ایسا کھلا اعلان خوفزدگاں کی خوفزدگی میں مزید اضافہ کیوں نہیں کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی غالباً فلوریڈا کے ساحلی محل میں یہ پریس کانفرنس دنیا کے سامنے اپنی اور اپنے ارادوں کی چہرہ دکھائی کے لیے کی ہے۔
بشکریہ العربیتہ اردو