میں پنجاب ہوں… اقتدارجاوید

میں ایک ’’بد نالوں بدنام برا‘‘ والا محاورہ ہوں۔میں ماقبل تاریخ قدیم پتھر کے زمانے سے آباد ہوں۔ میری معلوم عمر چار ہزار تین سو سال سے اوپر ہے مگر بدنامی والا داغ پچھلے ڈیڑھ سو سالوں سے لگنا شروع ہوا ہے۔اس سے پہلے میں انڈین تہذیب کا منہ متھا تھا اور انڈس سویلائزیشن میری گود میں پلی تھی۔میری سرحدیں ہمالیہ کے پہاڑوں سے بحر ہند تک پھیلی تھیں۔ہمالیہ کی پہاڑیوں کا سلسلہ میرے صحت افزا مقام مری تک آتا تھا۔میں دنیا کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہوں۔کتنی عجیب بات ہے کہ اتنا قدیم ہونے اور اتنا بڑا ہونے کے باوجود یہاں کسی بادشاہت یا حاکم کا وجود ہی نہیں تھا۔یہاں کے کسی بادشاہ کا نام آپ نے نہیں سنا ہو گا۔دوسرے قدیم علاقوں میں تو جو حکمران ہوتے تھے وہ خدا بھی ہو جاتے تھے۔ اسطور سازی بھی کر لیتے تھے اور عجیب و غریب کہانیاں گھڑ لیتے تھے۔میری ایسی کہانیاں بھی نہیں ہیں۔جب کہیں ایسی حکومت اور ایسے خدا نہ ہوں تو وہاں عام آدمی ہی حکمران ہوتا ہے۔ جب مصر اور یونان میں” خداؤں” کا دور تھا میرے ہاں عام آدمی کا دور تھا۔میں اپنی حدود میں مست و شاداں تھا کہ ایک دن پتہ چلا مصر کا بادشاہ اور خدا اوسیرس یہاں حملہ آور ہو چکا ہے۔ یہی نہیں وہ”خدا” اپنے دو بیٹوں انیولوس اور مسیڈو کو بھی ساتھ لے آیا۔ مجھے کیا معلوم کہ جنگ کیا ہوتی ہے اور حملہ آور کون ہوتا ہے۔مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اپنے علاقے سے نکل دوسروں کے علاقوں اور ملکوں کو ہتھیایا بھی جاتا ہے اور لوگوں کو تہہ تیغ بھی کیا جاتا ہے۔وہ کیسے خدا تھے جو لوگوں کو قتل کرتے تھے اور میرے رہنے والوں کو اجڈ اور گنوار کہتے تھے۔ جب دنیا میں لوگ کچا گوشت کھاتے تھے میرے ہاں باقاعدہ شہر آباد ہو چکے تھے۔یہاں گندم اور چاول کی فصلیں اگائی جاتی تھیں اور تجارت ہوتی تھی۔آرام دہ مکانات تھے اور تجارت عراق اور خلیج فارس تک پھیلی ہوئی تھی۔یہ بھوک کے مارے لوگوں کے لیے جنت تھی اس لیے وہ حضرت عیسٰیؑ سے تین چار ہزار سال پہلے تلواریں سونت کر آ نکلے۔ قبل از مسیح شمال سے آنے والے لاکھوں تھے اور اپنی غربت کے ہاتھوں اپنے علاقوں کو چھوڑ آئے تھے۔شمال سے آنے والے نئے مذہب بھی لے کر آ گئے اور یہیں نیا مذہب بنا کر میرے لوگوں کو تقسیم کرنے لگے۔یہیں ان کی مقدس کتابیں لکھی گئیں۔یہ کتابیں یہاں آ کر لکھنے کی کیا وجہ تھی۔اپنے علاقے میں یہ مذہبی کتابیں لکھتے اور ان پر عمل کرتے۔یہاں کسی وید کا گزر تک نہیں تھا۔ایک لامذہب معاشرہ تھا جس کی جڑیں کاٹ دی گئیں اور اور کئی وید لکھے گئے۔اس لامذہب معاشرے کو مذہب دشمن معاشرہ مت سمجھیے گا۔میرا وہ معاشرہ قدرت پر یقین کا داعی تھا اور عمومی طور پر برابری کی بنیاد پر قائم تھا۔اسی مذہب بنانے والوں نے سب سے پہلے میرے معاشرے کو تقسیم کیا۔ میں کسی نشست میں اپنے مذہبی ہونے اور خود پر مذہبی یلغار کا الگ بھی ذکر کروں گا ،ابھی میں خود پر سیاسی قبضہ گیروں تک محدود رہوں گا۔ پچھلے چار ہزار سالوں میں جو بھی آیا شمال سے آیا اور اپنا دامن بھر کر چلتا بنا۔خصوصاً ایک ہزار سال پہلے ہمارے مسلمان بھائی آئے اور مال غنیمت لے کر واپس لوٹتے رہے۔میں رفتہ رفتہ خالی ہوتا گیا۔اصل منزل ان کی جنوب ہوتی تھی مگر گزرگاہ میں ہی تھا۔وہ مجھے ہی روندتے چلے گئے۔ انہوں نے ہی میری کمر توڑی اور میں نے جنوب سے آئے گورے راج میں تھرڈ کلاس ملازمت اور لوئر جنگی سپاہی کا رول قبول کر لیا۔پچھلے پانچ سو سالوں میں میری جیسے کایا کلپ ہو گئی۔ اب یہاں دو طبقے پائے جاتے ہیں ایک وہ جو کولونیل سسٹم میں جاگیردار بنے۔ ان میں وہ سارے سیاست دان بھی شامل ہیں جو دو نمبری کے ذریعے ایلیٹ کلاس میں شامل ہوئے۔ ان کے ساتھ سرکاری اداروں اور کھاتوں پر پلے اور فربہ سیاست دان اور ان کے حواری ہیں جو لوئر لیول سے اٹھ کر مار دھاڑ میں شریک ہوئے ہیں۔یہ ایک کلاس ہے جن کا کوئی روزگار نہیں مگر ارب پتی ہیں اور دوسرے وہ زیریں طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور نان روٹی کے محتاج ہیں۔انہی سیاست دانوں اور کولونیل سسٹم کے پروردوں نے پنجاب کی آواز کو دبایا ہوا ہے۔ یوں میری اپنی آواز گم ہوئی اور میں دوسروں کی رائے کا محتاج ہو گیا۔میں ان کے کانوں سے سننے لگا اور ان کی زبان بولنے لگا۔یہ نیا ذائقہ مجھے راس آتا گیا۔ میں خود سے بیگانہ ہوتا چلا گیا۔خود میرے اپنوں نے میری تاریخ ایسے لکھی کہ یہاں کے سارے اسی کو درست سمجھنے لگے۔ میرے اپنوں نے وکٹوریہ کراس کو زندگی سے افضل تمغہ سمجھا اور گوروں کی طرف سے مالیہ وصول کرنے کے حکم نامے کو اپنی بیٹھکوں اور داروں میں سجایا۔نوبت با اینجا رسید، مجھ سے ہی سوال ہونے لگے کہ بھگت سنگھ میرا بیٹا ہے بھی یا نہیں۔ایسے سوال کر کے میرا سینہ چھلنی کرنے والے میرے اپنے ہیں۔ اب اصل پنجابی بھی یہی سمجھنے لگا ہے کہ پنجاب ازل سے ایسا ہی تھا یعنی حکومت ِوقت کا باجگزار، خاموش بے ضمیر اور اپنے مفاد میں بندھا ہوا۔یہ پنجاب کی نمائندگی کا دعویٰ کریں تو سراسر باطل ہے۔ ویسے انہیں اب اس قسم کے دعوے کی فکر بھی نہیں۔ اصل پنجابی آج بھی سچ کے ساتھ کھڑا ہے مگر زندگی کی چکی میں پسنے کی وجہ سے خاموش خاموش اور ناراض ناراض سا ہے۔میں اس خاموش اور ناراض طبقے کا منتظر ہوں وہ آئے اور مجھے میری اصل شناخت سے بہرہ ور کرے اور مجھے بتائے میں پنجاب ہوں بھی یا نہیں۔ (جدید تحقیق اور ذرائع مصری ” خدا” اوسیرس کے حملے کو تاریخی طور پر درست نہیں مانتے اسے اسطور سازی کہتے ہیں مگر سید محمد لطیف نے اس حملے کی باقاعدہ تفصیلات بھی دی ہیں۔)