اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کے ارکان کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کے معاملہ پر دائرنظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد سے سخت سولات۔ خواجہ حارث مسکراکرسوالات سنتے رہے اور کہتے رہے کہ میں سوالات کے جواب دوں گا۔ جبکہ بینچ نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے ملزمان کووکالت نامے پر دستخط نہ کرنے دینے کے معاملہ پر سیشن ججز کو معاملہ دیکھنے کاحکم دے دیا۔
جبکہ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے یمارکس دیئے ہیں کہ صدر صرف بنیادی حقوق کانفاذ معطل کرواسکتا ہے، ہمیں سکیورٹی کے معاملے مداخلت نہیں کرنی چاہیئے، عدالت کواپنے دائرہ اختیار سے باہر جاکرحکم نہیں دینا چاہیے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا صدر کے پاس اختیار ہے کہ وہ سارے بنیادی حقوق معطل کردے۔ کیا فوجی اہلکاروں کاحق نہیں کہ ان کے کیسز آزاد اور اہل ججز سنیں، کیوں سول جج تعینات نہ کریں، بے شک وہ اسی قانون کے تحت کیس سنیں، کیا سخت سے سخت سزادینے کے لئے فوجی اہلکاروں کاحق نہیں کہ ان کوآزاد ٹرائل فراہم کیا جائے۔ انسداد دہشتگردی عدالت سے ملزم بری ہو رہا اسے فوجی ، عدالت سے سزا ہو رہی، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ انسداد دہشتگردی عدالتوں کو کیوں نہیں مضبوط بنایا جاتا؟ عدالتوں نے فیصلہ تو شواہد دیکھ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔
جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایمرجنسی کے دورم میں بنیادی حقوق کے نفاذ کے لئے کسی بھی عدالت میں نہیں جاسکتے ، بھارت کے آئین میں بھی پاکستان کی طرح آرٹیکل موجود ہے، آرمی ایکٹ کے سیکشن 2-dکو کالعدم قراردینے سے جاسوس کاٹرائل بھی فوجی عدالت میں نہیں ہوسکتا جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے سوال کیا ہے کہ جی ایچ کیو پر پہلے بھی حملے ہوئے ہیں، اندرلوگ گئے ہیں اور بہت سی شہادتیں بھی ہوئی ہیں، کراچی ائیرپورٹ پرایک دہشت گردی کی کارروائی میں ایک کورین طیارے کو تباہ کیا گیا،اربوں روپے کانقصان ہوا، شہادتیں ہوئیں، طیارہ سازش کیس میں ایک آرمی چیف بیرونی دورے پر تھے انکے جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی کیا ان سارے واقعات کاٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا، کیا ان کیسز کاڈیٹا ہے، سوال نوٹس کرلیں اورڈیٹا لے آئیں، سویلینز نے حملے کئے کیا ان کاٹرایک فوجی عدالتوں میں ہوا۔ اچھے پراسیکیوٹرہوں گے توتحقیقات بھی اچھی ہوں گی، کیا 9 مئی کا واقعہ دہشتگردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جو ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو رہا؟ اچھے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی۔
جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں 9 مئی 2023 کے پرتشدد احتجاج کے کیس میںجب ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا یگا توبنیادی حقوق معطل نہیں تھے،اور ملک میں اُس وقت کوئی ایمرجنسی بھی نافذ نہیں تھی۔ یہاں دائرہ اختیار کاسوال ہے، فوجی عدالتوں کے وجود کاسوال نہیں،دلائل میں یس سر، نوسرسے بات اب آگے بڑھنی چاہیے ، 9مئی واقعات کی ایف آئی آرز نہیں دکھائی جارہیں جبکہ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 9 مئی واقعات کے کل کتنے ملزمان ہیں،103 ملزمان کیخلاف ملٹری کورٹس میں کیس چلا، باقی کیسز انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چل رہے ہیں، یہ تفریق کیسے کی گئی، کون سا کیس فوجی عدالت میں جائے گا، کونسا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں جائے گا، ملزمان کو فوج کی تحویل میں دینے کا انسداد دہشت گردی عدالتوں کا تحریری حکمنامہ کدھر ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 7رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملہ پردائر 39نظرثانی درخواستوں پرسماعت کی۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے دلائل جاری رکھے۔ خواجہ حارث کل (جمعہ)کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
خواجہ حارث کا د لائل جاری کھتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے آرٹیکل 233 کو غیر مئوثر کر دیا، آرٹیکل 233 کا فوجی عدالتوں کے کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 233 کو آرٹیکل 8(5) کی تشریح درست ثابت کرنے کیلئے چھیڑا گیا، آرٹیکل 233 کے تحت صدر ایمرجنسی نافذ کرنے بنیاد حقوق معطل کر سکتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ صدر نے آرٹیکل 233-2کے تحت مخصوص بنیادی حقوق معطل کرنے کاتذکرہ کرنا ہے، سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کے دور میں بھی ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی توبنیادی حقوق معطل تھے ۔ مشرف کی ایمرجنسی کے دور میں ہائی کورٹس آئین کے آرٹیکل 199کے تحت آئینی درخواستیں نہیں لے رہی تھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کہنا تھا کہ ایمرجنسی کے دورم میں بنیادی حقوق کے نفاذ کے لئے کسی بھی عدالت میں نہیں جاسکتے، بھارت کے آئین میں بھی پاکستان کی طرح آرٹیکل موجود ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ صدر صرف بنیادی حقوق کانفاذ معطل کرواسکتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ صدر صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ آرٹیکل 233میں معطل بنیادی حقوق کانفاذ نہیں کرواسکتے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایمرجنسی میں بنیادی حقوق معطل ہوسکتے ہیں تاہم موجودہ کیس میں جب ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا یگا توبنیادی حقوق معطل نہیں تھے،اور ملک میں اُس وقت کوئی ایمرجنسی بھی نافذ نہیں تھی۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ 5رکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکل 8-5کے حوالہ سے اپنا کیس مضبوط کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 233-2کو غیر مئوثر کردیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آرٹیکل 233میںصرف چھ آرٹیلکلز کو معطل کیا گیا ہے، صدر اس میں اضافہ نہیں کرسکتے بینچ نے یہ درست بات کہی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا صدر یہ کہہ سکتا ہے کہ آرٹیکل 10-Aکو بھی معطل کیا جاتاہے۔
خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ آرٹیکل 233-2سارے بنیادی حقوق کی بات کررہا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ بنیادی حقوق آئین کے آرٹیکل 233-1میں دیئے گئے ہیں، کیا صدر کسی بھی بنیادی حقوق کوشامل کرسکتا ہے، بنیادی حقوق توہیں ہی چیپٹر ایک میں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ صدر کااختیار ہے یہ نہیں کہ صدر لازماً مخصوص بنیادی حقوق معطل کرے گا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ صدر آئین کے آرٹیکلز 15،16،17،18،19اور24کومعطل کرسکتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا صدر کے پاس اختیار ہے کہ وہ سارے بنیادی حقوق معطل کردے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 189کے تحت تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز پر سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ کافیصلہ ماننا لازم ہے، ہم نے اس فیصلے کودیکھنا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میں واضح نہیں ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ صدر مملکت 6آرٹیکلز میں سے ایک، دو، چار یاسارے بھی معطل کرسکتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 5رکنی بینچ نے آرٹیکل 233-2کو غیر مئوثر نہیں کیا بلکہ محدود کردیا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175کے تحت ہائی کورٹس کے ماتحت نہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایک آرمی ڈسپلن کے حوالہ سے ہے اور دوسرافوجداری جرائم کے حوالہ سے ہے، جب جرم آتا ہے توعدالتی آجاتی ہے،دنیا میں بہت سے ممالک نے فوجی عدالتیں ختم کرکے مسلح افواج کے کیسز بھی سول عدالتوں کو بھجوادیئے ہیں، کیا فوجی اہلکاروں کاحق نہیں کہ ان کے کیسز آزاد اور اہل ججز سنیں، کیوں سول جج تعینات نہ کریں، بے شک وہ اسی قانون کے تحت کیس سنیں، کیا سخت سے سخت سزادینے کے لئے فوجی اہلکاروں کاحق نہیں کہ ان کوآزاد ٹرائل فراہم کیا جائے۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ جی ایچ کیو پر پہلے بھی حملے ہوئے ہیں، اندرلوگ گئے ہیں اور بہت سی شہادتیں بھی ہوئی ہیں، کراچی ائیرپورٹ پرایک دہشت گردی کی کارروائی میں ایک کورین طیارے کو تباہ کیا گیا،اربوں روپے کانقصان ہوا، شہادتیں ہوئیں، طیارہ سازش کیس میں ایک آرمی چیف بیرونی دورے پر تھے انکے جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی، اس کیس میں خواجہ حارث اپنے والد کے ساتھ یک درخواست گذار کی جانب سے پیش ہوتے رہے، خواجہ حارث کے والد اور اعجاز بٹالوی بطور وکیل پیش ہوتے رہے ان کومیں نے دلائل دیتے ہوئے دیکھا ، انسداددہشت گردی عدالت کے جج رحمت حسین جعفری نے سزاسنائی جو سپریم کورٹ تک برقراررہی، رحمت حسین جعفری پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے جج بھی رہے، کیا سارے واقعات کو شامل کیا دہشت گردوں نے حملے کئے کیا ان سارے واقعات کاٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا، کیا ان کیسز کاڈیٹا ہے، سوال نوٹس کرلیں اورڈیٹا لے آئیں، سویلینز نے حملے کئے کیا ان کاٹرایک فوجی عدالتوں میں ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آرمی چیف کاطیارہ اغوا ہونے کا کیس محض الزام تھا۔جسٹس مسرت ہلالی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہاں دائرہ اختیار کاسوال ہے، فوجی عدالتوں کے وجود کاسوال نہیں، دلائل میں یس سر، نوسرسے بات اب آگے بڑھنی چاہیئے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیس ملٹری کورٹس کے وجود کا نہیں بلکہ اختیار سماعت کا کیس ہے، کونسا کیس ملٹری کورٹس میں چلے گا کون سا نہیں چلے گا، یہ تفریق کیسے کی جاتی ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نے کہا کہ آپ سوالات کی بھری ہوئی ٹوکری لے کرجارہے ہیں، ایک باسکٹ میں میرا سوال بھی لے جائیں، 9 مئی واقعات کے کل کتنے ملزمان ہیں، 103 ملزمان کیخلاف ملٹری کورٹس میں کیس چلا، باقی کیسز انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چل رہے ہیں، یہ تفریق کیسے کی گئی کون سا کیس فوجی عدالت میں جائے گا، کونسا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں جائے گا، ملزمان کو فوج کی تحویل میں دینے کا انسداد دہشت گردی عدالتوں کا تحریری حکمنامہ کدھر ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کوئی جرم شروع کیسے ہوتا ہے، سیشن کورٹ،مجسٹریٹ یا ڈسٹرکٹ کورٹ کس عدالت کااختیار ہے کہ فیصلہ کرے کہاں کیس سنا جائے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ مقدمات کہاں چلنے ہیں اسکی تفریق کیسے اور کن اصولوں پر کی جاتی ہے، ہم نے ابھی تک ایف آئی آرز نہیں دیکھیں کہ ان میں کون سے جرائم کاتذکرہ ہے، دوسراہم نے ملزمان کوفوجی تحویل میں دینے کاحکم نہیں دیکھا۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ مختلف جگہوں پر کیس چل رہے ہیں کیسے امتیاز کیا گیا کہ یہ کیس فوجی عدالتوں میں چلیں گے اور یہ انسداد دہشت گردع عدالتوں میں چلیں گے، کیسز میں سزائے موت اورعمر قید بھی ہوسکتی ہے، جرائم کی نوعیت کیا ہے ، پی پی سی یاآفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جرائم کاتذکرہ ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ 9مئی واقعات کی ایف آئی آرز نہیں دکھائی جارہیں۔ دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کا تذکرہ کرتے ہوئے جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ کلبھوشن یادیو کا کیس کس سیکشن کے تحت چلا، اگرآرمی ایکٹ کاسیکشن 2-dہٹ گیا تو کیا کیس چلا سکتا ہے۔ اس پر خواجہ حارث کانہیں چل سکتا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2-dکو کالعدم قراردینے سے جاسوس کاٹرائل بھی فوجی عدالت میں نہیں ہوسکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیوں نہ ہم انسداد دہشت گردی عدالتوں کو مضبوط بنائیں، جھجک کیوں ہے، پراسیکیوشن کمزور ہے، ہم اپنے پراسیکیوشن کے نظام کو مضبوط کیوں نہیں کر رہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ انسداد دہشتگردی عدالت سے ملزم بری ہو رہا اسے فوجی ، عدالت سے سزا ہو رہی، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ انسداد دہشتگردی عدالتوں کو کیوں نہیں مضبوط بنایا جاتا؟ عدالتوں نے فیصلہ تو شواہد دیکھ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ اچھے پراسیکیوٹرہوں گے توتحقیقات بھی اچھی ہوں گی، کیا 9 مئی کا واقعہ دہشتگردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جو ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو رہا؟ اچھے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہونگی۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ جتنے واقعات ہیں ان کی ایف آئی آرز کی ایک، ایک کاپی لگایئے اس سے اندازہ ہوجائے گا کہ کون سی دفعات لگائی گئی ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ مجھے کوئی شک وشبہ نہیں کہ ایکٹ میں کیا لکھا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ایف بی علی کیس میں بغاوت کاالزام تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ امریکہ سارزنظام گوانتاناموبے میں لے گیا تھا کیونکہ امریکہ کاقانون اجازت نہیں دیتا تھا۔ اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ امریکہ اپنے مفاد کے لئے سب کچھ کرتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاخواجہ حارث کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خواجہ صاحب! یہ کون فیصلہ کرتا ہے کہاس شخص کا فوجی عدالت اوراِس شخص کاسویلین عدالت میں ٹرائل ہوگا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ خصوصی عدالتیں ہائی کورٹس کے ماتحت بنتی ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے وجود کانہیں بلکہ دائرہ اختیارکاسوال ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ فوجی عدالت اورہرعدالت کو عزت دینی ہے، عدالت آئین کے اندررہتے ہوئے بنانی ہے۔ اس پر جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم کیس کی سماعت کل (جمعہ)تک ملتوی کررہے ہیں۔ اس دوران ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب وسیم ممتاز ملک نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے مجرمان کو قید تنہائی میں رکھنے سے متعلق رپورٹ پیش کر دی۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کاکہنا تھا کہ مجرمان کو صبح 7بجے ناشتے کے بعد لان میں چھوڑ دیا جاتا ہے اورشام 5بجے تک مجرمان باہر رہتے ہیں،مجرمان کوقید تنہائی میں نہیں رکھا ہوابلکہ ایک ہی بیرک میں رکھا ہوا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ حفیظ اللہ نیازی کہہ رہے تھے قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے، بند کمرے میںہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ لان کونسا ہے ڈیتھ سیل والا لان تو نہیں ہے۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ نہیں سر یہ وہ والا لان نہیں جو آپ نے دیکھا ہوا ہے، جیل میں ٹک شاپ ہے کافی اور چائے بھی اپنے پیسوں سے پیتے ہیں، ،گھر سے مجرمان کو میٹرس بھی دیئے گئے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ہماری جیل کمیٹی بھی بنی ہوئی ہے اُس کو بھیج کرتصدیق بھی کروائیں گے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاوسیم ممتاز ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں سرکاری وکیل بھی رہی ہوں ہمیں بہت سی حکومت کی باتوں کی حمایت کرنا پڑتی ہے۔ اس وسیم ممتاز ملک کاکہنا تھا کہ مجھے پریکٹس کرتے 30سال ہو گئے ہیں جو چیز غلط ہوتی میں اس کی حمایت سے انکارکردیتا ہوں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہمیں سیکیورٹی کے معاملہ مداخلت نہیں کرنی چاہیئے، عدالت کواپنے دائرہ اختیار سے باہر جاکرحکم نہیں دینا چاہیئے۔
جسٹس امین الدین خان کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالتی حکم پرتحریری جواب جمع کروایا، جواب میں کہا گیا ہے کہ سزایافتہ مجرمان کو جیل مینوئل کے مطابق سہولیات دی جارہی ہیں۔حفیظ اللہ نیازی نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے جواب کی نفی کی۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر سہولت نہیں مل رہ تو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے ساتھ جاکردیکھ لیں انہوں نے دورہ کرنا ہوتا ہے، وہ جاکردیکھ لیں گے۔ اس دوران لاہور سے پیش ہوتے ہوئے مدعا علیہان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ سزایافتہ مجرموں کو اپنی سزائوں پر اپیلیں دائر کرنے کے لئے وکالت نامہ پردستخط کی اجازت نہیں دی جارہی۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ جیل کولکھیں گے ، وکالت نامہ پردستخط کے لئے کوئی نہیں روکتا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ وکالت نامہ پر دستخط کامعاملہ بھی سیشن ججز دیکھیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ دستخط سپرنٹنڈنٹ جیل کرواسکتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ دستخط کروانے سے کون انکارکرسکتا ہے۔ وسیم ممتازملک کاکہنا تھا کہ جس کوانکارکیا ہے اُس کانام بتائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ بہت سارے لوگ ہیں کسی کانام بتائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ وکالت نامہ پردستخط کرنا ملزمان کاحق ہے۔ اس موقع پرسردارلطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ سزایافتہ مجرم برگیڈیئر(ر)جاوید اکبر کے وکالت نامہ پردستخط نہیں کروائے جارہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ سیشن جج کوشکایت کریں، سرکاری وکیل نے لکھ کردے دیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اپیل میں اپنی مرضی سے جارہے ہیں، آرمی چیف کے پاس بھی رحم کی اپیل کرنی ہے تووکالت نامہ پردستخط توکروانا پڑیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر کوئی خلاف ورزی ہورہی ہے توہم نے کہہ دیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر فیصلے کی کاپی نہیں مل رہی تووہ الگ با ت ہے۔ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ آئینی بینچ، سیشن ججزسے عدالتی حکم پر عملدرآمد کی رپورٹم منگوالے۔اس پر جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ نہیں کریں گے توبتایئے گا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ نہیں کریں گے توہم جواب مانگ لیں گے۔ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ خواجہ حارث صاحب نے نیب ترامیم کیس میں 6 ماہ تک دلائل دئیے تھے، خواجہ حارث6ماہ کا ٹیسٹ میچ کھیلتے ہیں۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کافیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا آپ ٹی ٹوینٹی کی طرح کھیلنا چاہتے ہیں؟انہیں اپنی مرضی سے دلائل دینے دیں۔اس پرفیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ ہم اِس سے بھی کم ہیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالہ سے اپیلوں پر سماعت کل(جمعہ)کے روز تک ملتوی کردی۔