اسلام آباد (صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں فوجی عدالتوں سے سزاپانے والے ملزمان کوقید تنہائی میں رکھنے، کم وقت کے لئے بیرکس سے نکالنے اوروکیل سے ملاقات نہ کروانے کے معاملہ پر پنجاب حکومت سے کل (جمعرات کو)جواب طلب کرلیا۔
جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ رولز کے مطابق قیدیوں سے برتائو ہونا چاہیے ، ہم روزانہ کی بنیاد پر اس معاملے کو دیکھیں گے، اگرپتا کرنے کے لئے کسی کو جیل بھجوانا پڑا تو بھجوائیں گے۔ جبکہ جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ تنہائی میں رہنا بہت بڑی سزا ہے، اگر دو دن کسی کمرے میں بند کر دیا جائے تو انسان نہیں رہ سکتا، جیلوں میں دہشتگردوں اور قتل کے ملزمان کو آزاد گھومنے پھرنے کی اجازت ہے، ان ملزمان نے کونسا اتنا بڑا جرم کر دیا ہے؟ کہا جاتا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے، میرے خیال میں آئین سپریم ہے۔ بنیادی حقوق اُن لوگوں کونہیں ملیں گے جو آئین کے آرٹیکل 8(3)میں آتے ہیں، یہ سادہ ساسوال ہے کہ آرٹیکل 8(3)میں کون لوگ آئیں گے۔
اگرقانون، آئین کے خلاف ہے تو کیسے اِس کوچیلنج نہیں کیاجاسکتا، آئین کے آرٹیکل 8کی شقوں 1،2اور3کے خلاف قانون بنایا گیا، مجموعی اعتراض یہی ہے کہ 8-3(a)سے ہٹ کربنایا گیا ہے۔ موجودہ کیس میں 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی استعمال ہورہی ہے، یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے، چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے کہ مدعا علیہان کے وکلاء بتائیں گے کہ اگر فوجی عدالتیں ایگزیکٹو عدالتیں ہیں توکیوں ہیں۔
جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے ہیں کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کے خلاف ٹرائل کے لیے تھا، کیا تمام سویلین کے ساتھ وہی برتا کیا جاسکتا ہے جیسے اے پی ایس سانحہ میں کیا گیا، پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے۔جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اکثریتی فیصلے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ فوجی عدالتیں قانونی ہیں۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد کل (جمعرات)کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل 7رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملہ پر دائر 39نظرثانی درخواستوں پرسماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 233کے تحت ایمرجنسی کے دورمیں بنیادی حقوق معطل کیئے جاتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین کاآرٹیکل 8(5)عدالت کے سامنے نہیں تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 8(5)فیصلے کی بنیاد ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے مئوقف اپنایا کہ عدالتی فیصلے کی بنیادآئین کا آرٹیکل 8(5) اور 8(3) ہے، دونوں ذیلی آرٹیکلز یکسر مختلف ہیں، انہیں یکجا نہیں کیا جا سکتا۔خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ بینچ نے دیکھنا ہے کہ 5رکنی بینچ کے فیصلہ کو قانون کے مطابق برقراررکھا جاسکتا ہے کہ نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کا یہ نکتہ کل سمجھ آ چکا، اب آگے چلیں اور بقیہ دلائل مکمل کریں۔جسٹس محمد علی مظہر نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ آپ جسٹس منیب کے فیصلے کے پیراگراف پڑھ رہے تھے وہیں سے شروع کریں، آرٹیکل 233 بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ یہ لکھ دیا کہ آئین کے اندر جوچیز ہے اسی سے بنیادی حقوق معطل ہوسکتے ہیں، ایمرجنسی کے نفاذ کے وقت بتانا ہے کہ کون سے بنیادی حقوق معطل رہیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین کے مطابق بھی رولز معطل ہوتے ہیں ختم نہیں، آرٹیکل8(5) کے مطابق بھی حقوق معطل نہیں ہو سکتے۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 233 کے دو حصے ہیں ایک آرمڈ فورسز کا دوسرا سویلینز کا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگرقانون، آئین کے خلاف ہے تو کیسے اِس کوچیلنج نہیں کیاجاسکتا، آئین کے آرٹیکل 8کی شقوں 1،2اور3کے خلاف قانون بنایا گیا، مجموعی اعتراض یہی ہے کہ 8-3(a)سے ہٹ کربنایا گیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پہلے ہم فیصلے کودیکھیں گے کہ ہمارا نقطہ نظر مختلف ہوسکتا ہے کہ نہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 8(5)کااطلاق نہیں کرسکتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا اس کیس میں جونقطہ ہے وہ ایف بی علی کیس میں زیر بحث آیا تھا، اُس وقت مسلح افواج کے سول ملازمین کاکیس تھا اب عام شہریوں کاکیس ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ موجودہ کیس میں 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی استعمال ہورہی ہے، یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے، چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ایف بی علی کیس میں فیصلہ ہواتھا کہ سویلینز کا2(1)d(1)کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا آئین کے آرٹیکل 8کی دفعات 1،2اور3کے تحت سویلنز کاٹرائل کیا جاسکتا ہے کہ نہیں، سب آرٹیکل کاسکوپ دیکھنا ہے، کیا مخصوص کلاس کے لئے ہے یاسویلینز کوبھی شامل کرسکتے ہیں۔اس پر خواجہ حارث کا کہناتھا کہ کہ عام تاثر اس سے مختلف ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ عام تاثر کو چھوڑ دیں یہ بتائیں سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہم نے فیصلے کاجائزہ لینا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ اے پی ایس جیسے بڑے واقعہ کی وجہ سے سویلین ملز مان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا گیا،اے پی ایس واقعہ کے ملزمان کے بنیادی حقوق معطل ہوگئے تھے۔خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ کسی چیزکوتبدیل کرنا ہے توآئین میں ترمیم کرسکتے ہیں، ہرملک کاقانون مختلف ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ جب آرمی ایکٹ میں آتے ہیں تو کیا سارے بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اس میں انٹرنیشنل پریکٹس کیا ہے کیا آپ کے پاس اس کی کوئی مثال ہے، کیاوہاں بھی سویلینز کافوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟ جس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ میرے پاس مثالیں موجود ہیں آگے چل کر اس پر بھی بات کروں گا۔جسٹس مسرت ہلالی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوئی مثال دے دیں۔ اس پرخواجہ حارث کاکہنا تھا کہ بعد میں مثالیں دے دوں گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بنیادی حقوق اُن لوگوں کونہیں ملیں گے جو آئین کے آرٹیکل 8(3)میں آتے ہیں، یہ سادہ ساسوال ہے کہ آرٹیکل 8(3)میں کون لوگ آئیں گے۔ اس دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا کہ آپ دلائل مکمل کرلیں پھر ہم سوال پوچھ لیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا جوشخص سوچے گاوہ بھی 2-1-d-1میں شامل ہوجائے گا ، روزانہ ہمارے جوان شہید ہوتے ہیں اس پرہمیں دکھ ہے،ان پر حملہ کرنے والوں کا بھی کیا ملٹری ٹرائل ہوگا؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اس کیس میں ہم یہ نہیں دیکھ رہے کہ مستقبل میں کن لوگوں کا ٹرائل ہو سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کون سے سویلینز اور کون سے اقدامات ہوں گے جواِس کی تعریف میں آئیں گے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ جومسلح افواج کے اہلکاروں کو اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے کے حوالہ سے ترغیب دیں گے یاکوشش کریں گے اور حکومت کاحکم نہ ماننے کی ترغیب دیں گے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہلے شیڈول میں بھی کوئی قانون ہے اس کو بھی آپ نہیں چھیڑ سکتے ۔اس پر پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ بھی اہم ہے کہ موجودہ قانون میں لاگو ہوگا۔
جسٹس نعیم اختر افغان کا خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خواجہ صاحب لگتا ہے آپ کی تیاری مکمل نہیں ہے، 5رکنی بنچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم کی ہیں، اگر ہم بھی ان دفعات کو کالعدم رکھیں پھر تو سویلین کا خصوصی عدالتوں میں ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا، اگر ہم کسی اور نتیجے پر پہنچیں تو طے کرنا ہوگا کون سے سویلین کا خصوصی ٹرائل ہوسکتا ہے، آپ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو پوراپڑھ نہیں آرہے، اب آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923میںاب 2023 میں ترمیم بھی ہو چکی ہے، جو شخص چوکی میںزبردستی گھسنا چاہے اس کافوجی ٹرائل ہوگا کہ نہیں ہمیں اس ترمیم کی روشنی میںہماری معاونت کریں،
گزشتہ روز جسٹس جمال خان مندوخیل نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لئے پوچھا تھا۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ فیصلے کے سارے پیرے پڑھنے بیٹھ جائیں گے تو2ماہ بھی کیس ختم نہیں گیا، سارے پیرے پڑھ کرہماری معاونت کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ جرائم کودیکھنا ہے کہ اس کاٹرائل بھی ہوسکتا ہے کہ نہیں، واقعات بھی بتادیں کن جگہوں پر حملے ہوئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 2-1-d-1کالعدم ہونا چاہیے تھا ، نہیں ہونا چاہئے تھا یا جزوی ہونا چاہیئے تھا۔ اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ہونا ہی نہیں چاہیئے تھا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کامختلف ریفرنس ہے،
جرم ہونے سے پہلے کاقانون دکھائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے بہت سے سوال ہیں اُن کونوٹ کرلیں اوراُن کاجواب دیں، ہم بار، بار چیزیں پوچھیں گے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ راز کو افشا کرنا بھی جرم ہے اگر جرم ہو گاتواس کاٹرائل کون کرے گا، پارلیمنٹ کو آئین کے آرٹیکل 175-Aکے تحت عدالت کے قیام اور رولز کے تعین کااختیاردیا گیا ہے، کیا آرٹیکل 175-Aسے ہٹ کربناسکتی ہے، پارلیمنٹ کا اختیار بلاشبہ ہے کہ قانون بنائے کیا کیا چیز جرم ہے، پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے کسی کو گھور کرریکھنا بھی جرم ہے، اس جرم کا ٹرائل کہاں ہوگا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے، آئین پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے، کہا جاتا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے، میرے خیال میں آئین سپریم ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کیا ایکشن سویلینز سے ہوگاتواس کاٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو گا، کیا پاکستان جیسے کم تعلیم یافتہ معاشرے میں عام سویلینز کوپتا ہے کہ پی پی سی، آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیا جرم ہے، کیا لوگوں کوپتا تھا کہ وہ جرم کررہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ عدالت بناسکتی ہے مگروہ عدالت کیسی ہوگی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ڈکلیئر کریں کہ فوجی عدالت ایگزیکٹوعدالت ہے، بہت سے قوانین ہیں جن میں ایگزیکٹو عدالتی اختیارات استعمال کررہا ہے، انکم ٹیکس، کسٹمز اور سیلز ٹیکس میں ایگزیکٹو افسران ہوتے ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ مدعا علیہان کے وکلاء بتائیں گے کہ اگر فوجی عدالتیں ایگزیکٹو عدالتیں ہیں توکیوں ہیں۔
جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ اکثریتی فیصلے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ فوجی عدالتیں قانونی ہیں۔ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم کل بھی کیس کی سماعت جاری رکھیں گے۔ اس کے بعد پی ٹی آئی رہنما حسان خان نیازی کے والدسینئر صحافی حفیظ اللہ نیازی روسٹرم پر آگئے۔اس پربینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب وسیم ممتاز ملک کو روسٹرم پر بلا لیا۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے رپورٹ عدالت میں پیش کی اور کہا کہ سانحہ 9 مئی کے 27 مجرمان تھے جن میں سے دو رہا ہو چکے، پنجاب کی جیلوں میں اب 25 مجرمان ہیں، تمام مجرمان کو یکساں حقوق فراہم کئے جا رہے ہیں، 10 روز میں دو بار اہلخانہ کی مجرمان سے ملاقات کرائی جا چکی ہے، مجرمان کو گھر کاکھانا اوردیگر چیزیں بھی مل رہی ہیں۔
حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ ملاقات کرائی گئی ہے مگر ماں، باپ اور بہن بھائی کے علاوہ کسی سے نہیں ملنے دیا گیا، ان قیدیوں کو عام قیدیوں کی طرح باہر نہیں نکلنے دیا جاتا۔جسٹس محمد علی مظہر نے حفیظ اللہ نیازی کومخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ ملاقات بھی ہو رہی ہے گھر کا کھانا بھی مل رہا ہے، آپ اور کیا چاہتے ہیں؟ باتوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر کیوں پیش کیا؟ایسے برے حال میں رکھا ہوا ہے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل کاکہنا تھا کہ میں خود بھی 14 روز جیل میں رہا ہوں، صبح نماز کے بعد باہر چھوڑ دیا کرتے تھے، کچھ قیدی کھیل وغیرہ بھی کھیلتے تھے، قیدی چاہے تو دھوپ لگوائے یا مختص کردہ احاطے میں گھومے پھرے اور شام5بجے والے بیرکس میں بند کردیتے تھے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیایہ خاص لوگ ہیں۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے مسکراتے ہوئے مکالمہ کیا کہ جمال مندوخیل صاحب آپ کو وکیل کے طور پر رعایت ملی ہو گی۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب وسیم ممتاز ملک کاکہنا تھا کہ میں بینچ کے رکن جسٹس بلال حسن کے ساتھ بہاولپورجیل میں رہا ہوں۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ یہاں اب پرانے راز نہ کھولیں۔ حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ ان ملزمان کو قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے، ملزمان کو اپنے سیل سے باہر نہیں نکالا جا رہا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر قیدی کو الگ الگ کمرہ دیا جائے؟
جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ رولز کے مطابق قیدیوں سے برتائو ہونا چاہیئے، ہم روزانہ کی بنیاد پر اس معاملے کو دیکھیں گے، اگر پتاکروانے کے لئجے جیل میں کسی کو بھجوانا پڑا تو بھجوائیں گے۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کیوں سارادن کمرے میں بند ہوتے ہیں۔ حفیظ اللہ نیازی کاکہنا تھا کہ جیل کے اندر چھوڑ دیں، وکیلوں کوملنے دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا جیل کے احاطہ میں نکلنے کی اجازت ہے کہ نہیں۔ اس موقع پرمدعا علیہ چوہدری اعتزاز احسن کاکہنا تھا کہ تمام قیدیوں کے برابرحقوق ہونے چاہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ میں جب پشاور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس تھی تو باقاعدگی سے جیلوں کا دورہ کرتی تھی، عام طور پر ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ ملزمان کے قریب نہیں جانے دیا جاتا، میں جب ان ملزمان کے قریب ہائی سیکیورٹی حصار میں گئی، کیااسی طرح یہاں بھی ہورہاہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ تنہائی میں رہنا بہت بڑی سزا ہے، اگر دو دن کسی کمرے میں بند کر دیا جائے تو انسان نہیں رہ سکتا، جیلوں میں دہشتگردوں اور قتل کے ملزمان کو آزاد گھومنے پھرنے کی اجازت ہے، ان ملزمان نے کونسا اتنا بڑا جرم کر دیا ہے؟آئینی بینچ نے ملزمان کو قید تنہائی میں رکھنے اور وکلا سے ملاقات نہ کروانے سے متعلق پنجاب حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے مزید سماعت آج (جمعرات)تک ملتوی کردی۔ ZS