بے چینی اور “کچیچی” … تحریر : نصرت جاوید


ماہرین سے سنا ہے کہ کسی موذی نشے کے شکار افراد اپنی طلب کے مطابق خوراک لئے بغیر پہلے اداس اور پھر بے چین ہوجاتے ہیں۔ بسااوقات ان کی بے چینی دیوانگی میں بدل جاتی ہے۔ خود کو اذیت دینے کے علاوہ بے شمار افراد چھوٹے جرائم سے آغاز کرتے ہوئے قتل وڈاکہ جیسی سنگین وارداتوں کا ارتکاب بھی شروع کردیتے ہیں۔ برائے مہربانی میری بات سن کر حیران نہ ہوجائیے گا۔ پیر کی سہ پہر میں نے ایک مختلف تناظر میں نشے سے محروم بے چین فردہی کی طرح محسوس کیا۔
گزشتہ برس کی جولائی سے ایک ٹی وی چینل کیلئے ٹاک شو نامی شے کررہا ہوں۔ دیگر شوز کے برعکس میں اس شو میں سینئر تجزیہ کاروں یا سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو مدعو نہیں کرتا۔ عقل اور بصیرت کے حوالے سے خود کفیل تصور کرتا ہوں۔ کوشش ہوتی ہے کہ دن بھر چلی خبروں میں سے چند اہم ترین کو چن کر ان کے بارے میں ساتھی اینکر کے ساتھ تجزیاتی سنائی دیتی گفتگو ہو۔ پروگرام کا مواد طے کرنے کے لئے پانچ بجے کے قریب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشاورت کرنا ہوتی ہے۔
آج سے چند دن قبل تک پروگرام کا مواد تیار کرنے میں شاذہی مشکل محسوس ہوئی۔ عزت مآب قاضی فائزعیسی صاحب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ہمارے متحرک ساتھیوں کی اکثریت نے ہمیں قائل کردیا کہ وہ اپنی معیادِ ملازمت میں اضافے کو بے چین ہیں۔ وہ اگر رضا مند نہ بھی ہوں تومبینہ طورپرفارم 47کی بنیاد پر قائم ہوئی حکومت خود کو ان کے سائے سے محروم کرنا نہیں چاہے گی۔ پروگرام کا ابتدائی حصہ لہذا اس بحث میں صرف ہوجاتا کہ قاضی صاحب معیادِ ملازمت میں اضافہ قبول کریں گے یا نہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آنا شروع ہوئے تو قضیہ یہ شروع ہوا کہ عزت مآب منصور علی شاہ صاحب ان کی جگہ لے پائیں گے یا نہیں؟
1973 کا آئین تیار کرنے والوں نے متفقہ طورپر یہ طے کردیا تھا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی وزیر اعظم کرے گا۔ 1996 میں لیکن سجاد علی شاہ نام کے ایک جج نے فرمائشی دکھتی ایک درخواست کی سماعت کے اختتام پر فیصلہ یہ کیا کہ ججوں کی تعیناتی میں سینیارٹی کا اصول اپنایا جائے گا۔ چیف جسٹس ریٹائر ہوتو اس کی جگہ سینئر ترین جج ہی کو نامزد کرنا پڑے گا۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ نام نہاد سینیارٹی کا اصول طے کرنے والے سجاد علی شاہ بذاتِ خود مذکورہ اصول کے تحت چیف جسٹس کے عہدے پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ موصوف کو محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اپنی دوسری حکومت کے دوران چنا تھا۔ محترمہ کی نگاہ میں وہ اس وجہ سے آئے کیونکہ انہوں نے نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ کی جانب سے نوازشریف کی پہلی حکومت کی صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرفی کو ناجائز ٹھہرانے والے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ ان کی دانست میں نوازشریف کو جو انصاف ملا وہ پنجابی سیاستدانوں ہی کو نصیب ہوتا ہے۔ سندھ سے آئے وزیر اعظم ایسی سہولت سے محروم رہے۔
چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالتے ہی لیکن وہ ججوں کی تعیناتی کے سلسلے میں من مانی کرنا شروع ہوگئے۔ اس ضمن میں ان دنوں کے صدر فاروق خان لغاری کو اپنا ہمنوابنالیا۔ سرائیکی وسیب کے لغاری نے سندھ کے سجاد علی شاہ کے ساتھ مل کر بالآخر 1996 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کردیا۔ مذکورہ برطرفی کیخلاف درخواست کی سنوائی میں لیت ولعل سے کام لیتے رہے۔ بالآخر اسے نسیم حسن شاہ کے لکھے فیصلے کے برعکس جائز وواجب ٹھہرایا۔
سجاد علی شاہ کے فیصلے نے نواز شریف کی ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ وزیر اعظم کے دفتر واپسی کی راہ ہموار کردی۔ وزارت عظمی میں چند دن صرف کرنے کے بعد مگر نواز شریف کو اندازہ ہوا کہ شاہ صاحب خود کو ضرورت سے ز یادہ خودمختار سمجھتے ہیں۔ ان سے نجات پانے کی گیم لگی۔ اس گیم کے چند حقائق سے بخوبی واقف ہوں۔ ان کا ذکر مگر کسی اور دن کے لئے موخر کرنا ہوگا۔
اصل موضوع کی جانب لوٹتے ہیں۔ پیر کے دن ٹاک شو کی تیاری کے لئے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تو فائز عیسی چیف جسٹس کا منصب چھوڑ چکے تھے۔ ان کی جگہ تعیناتی کے منتظر عزت مآب منصور علی شاہ صاحب نے احتجاجا استعفی بھی نہیں دیا۔ نئے چیف جسٹس صاحب نے بلکہ عہدہ سنبھالتے ہی فل کورٹ کا اجلاس طلب کرلیا۔ عزت مآب شاہ صاحب نے اس میں انٹرنیٹ کی زوم والی سہولت کی بدولت شرکت کی۔
شاہ صاحب کی فل کورٹ اجلاس میں شرکت ہی اپنے تئیں اہم نہیں تھی۔ اس سے بھی کہیں زیادہ قابل غور فل کورٹ کا یہ فیصلہ تھا کہ سپریم کورٹ کے زیر التوا 59ہزار سے زائد مقدمات کی برق رفتار سماعت کے لئے اس فارمولے سے رجوع کیا جائے جو عزت مآب منصور علی شاہ صاحب نے 2003 میں تیار کیا تھا۔ سپریم کورٹ سے باقاعدہ جاری ہوئے اعلامیے کی بدولت جو حقائق ہمارے سامنے آئے ان پر بحث کرتے ہوئے سکرین پر رونق لگانے کی گنجائش موجود نہیں تھی۔ سپریم کورٹ کا اعلامیہ واضح الفاظ میں پیغام یہ دے رہا تھا کہ وطن عزیز کی اعلی ترین عدالت سیاسی معاملات پر اثرپذیر ہونے کے بجائے اپنے اصل فرائض یعنی انصاف کی فراہمی سرعت کیساتھ یقینی بنانا چاہ رہی ہے۔ یہ مثبت خبر تھی۔ ہم صحافی مگر مثبت خبروں کو بیان کرنے کے ہنر سے محروم ہوچکے ہیں۔ ہمیں ہیجان برپا کرنے کی علت لاحق ہوچکی ہے۔ یقین مانیں تقریبا 20منٹ تک سپریم کورٹ کے جاری کئے اعلامیے کو بار بار پڑھتے ہوئے مجھے سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ میں اس میں سے ٹی وی سکرین پر رونق لگانے والا سودا کیسے تلاش کروں۔ پنجابی زبان کا ایک لفظ ہے کچیچی(کاف کے بعد چ اور پھردو نکتوں والی یے کے بعددوبارہ چ اور ی)۔ یہ دیوانگی میں دانت پیسنے یا اپنے جسم کو کاٹ لینے کی خواہش یا مرحلہ بیان کرتی ہے۔ وہ لفظ یاد آیا اور موذی نشے کے عادی افراد کی بے چینی بھی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت