سندھ حکومت صوبہ میں واقع کنٹونمٹ بورڈز سے پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کے لیے تین ماہ میں قانون سازی کرے۔ سپریم کورٹ

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ حکومت کوصوبہ میں واقع کنٹونمٹ بورڈز سے پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کے حوالہ سے قانون سازی کے لئے تین ماہ کا وقت دے دیا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ گزشتہ سماعت پر مدعا علیحان کو بقایاجات جمع نہ کروانے کے حوالہ سے دیا گیا ریلف برقراررہے گا۔جبکہ مدعا علیحان کنٹونمنٹ بورڈز 1958 کے ایکٹ کے تحت حکومت سندھ کو پراپرٹی ٹیکس اداکریں گے۔ جبکہ بینچ نے انکم ٹیکس ایکٹ 2001کی شق 7-Eکی تشریح کے حوالہ سے دائر درخواستوں پر سماعت 5جون تک ملتوی کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ آئندہ سماعت سے قبل بلوچستان ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ اپنے فیصلے جاری کردیں گی۔ سندھ ہائی کورٹ، لاہور ہائی اورپشاور ہائی کورٹ پہلے ہی اپنے فیصلے جاری کرچکی ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے آئندہ سماعت پر عدالتی ریکارڈ پر رکھے جائیں۔جسٹس سیدمنصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت 4جون سے کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پرکر کے معاملہ کافیصلہ کرے گی۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 5رکنی لارجر بینچ نے کنٹونمٹ بورڈز میں پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کے حوالہ سے وفاق پاکستان کی جانب سے سیکرٹری وزارت دفاع، حکومت پاکستان راولپنڈی ، ایگزیکٹو آفیسر، فیصل کنٹونمنٹ بورڑ کراچی،ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمٹ بورڈ کلفٹن، ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ کورنگی، کراچی، کنٹونمنٹ ایگزیکٹو آفیسر کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے مینیجنگ پارٹنر، کراچی اوردیگر کے توسط سے ایم ایس ملینیم مال مینجمنٹ کمپنی ، سبک مجید، اٹارنی کے زریعہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن پاکستان،کراچی،جلیل پیکیجنگ کے خلاف اس کے مینیجنگ پارٹنر، کراچی،مسمات بلقیس خالد، مسز شمع اسلم، گل ناز، رخسانہ ظفر، محمد زکریا،سامبا بینک لمیٹڈ کراچی،

ایم ایس البراکا اپاریل، نیشنل بینک آف پاکستان ، کراچی،اسداللہ کھتری، یاسمین چیخ، مسز طاہرہ بی بی،محمد اشرف خان اوردیگر کے خلاف سالانہ کرائے کی مالیت کے حساب سے ٹیکس کے مطالبہ، حکم امتناع جاری کرنے اور فریق بننے کی اجازت دینے کے حوال سے 134درخواستوں پر سماعت کی۔ جبکہ بینچ نے شیرمحمد اوریگر کی جانب سے وفاق پاکستان کے خلاف انکم ٹیکس ایکٹ2007کی شق 7-Eکی تشریح کے حوالہ سے دائر 218درخواستوں پر سماعت کی۔ وفاق پاکستان کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر منصور عثمان اعوان نے پیش ہوکردلائل دیئے جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پیش ہوئے۔ جبکہ مدعا علیحان کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ، ایان مصطفی میمن،  خواجہ شمس الاسلام ،اصغر علی اوردیگر بطوروکیل پیش ہوئے۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے آخری آرڈرمیں کہا تھا کہ سندھ کا ریٹ چارج ہوگا۔ جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ کنٹومنٹ ایکٹ1963جو کہ پورے ملک کے حوالہ سے ہے کیا سندھ حکومت کاقانو ن اس کو بھی متاثر کرے گا کہ نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ پراپرٹی ٹیکس کنٹومنٹ والے چارج کرتے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ قانون سازی میں کتنا وقت لگے گا۔ اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ جلد ازجلد ہوگا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ قانون سازی آئے گی تومعاملہ حل ہو گا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ قانون سازی کنٹومنٹ ٹیکس کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرے گی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم 6ماہ تک سماعت ملتوی کردیتے ہیں اوراس دوران عبوری حکم برقراررہے گا اورعبوری حکم پر عملدرآمد جاری رہے گا۔ اس پر اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کا کہنا تھا کہ 6ماہ نہیںبلکہ 3ماہ کا وقت دے دیں۔ ا س پر سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ 3ماہ کرلیتے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے مدعا علیحان کے وکلاء سے سوال کیا کہ کنٹومنٹ ہونا چاہیئے یا نہیں اس حوالہ سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ہمارے پاس اپیلیں لائے ہیں کہ نہیں، مدعاعلیحان کی جانب سے کوئی درخواست دائر نہیں کی گی۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کا مدعاعلیحان کے وکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ اس لئے اپیل نہیں لائے کہ آپ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے مطمئن تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ نے اس سوال کو اوپن چھوڑا ہے۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھاکہ ہوسکتا ہے کہ قانون سازی سارے معاملہ کو پلگ کردے۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی کاکہنا تھا کہ مدعا علیحان ابھی بھی درخواست دے سکتے ہیں، کس نے روکا ہے۔ بینچ نے سندھ حکومت کو قانون سازی کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 3ماہ کے لئے ملتوی کردی۔ عدالت نے قراردیا کہ 18مارچ کو مدعا علیحان کو دیا گیا ریلیف برقراررہے گا اور ٹیکس کنٹونمنٹ بورڈز 1958 کے ایکٹ کے تحت چارج ہو گا۔ جبکہ بینچ نے شیر محمد اوردیگر کی جانب سے وفاق پاکستان کے خلاف دائر 218درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں انکم ٹیکس ایکٹ2001کی دفعہ 7-Eکو چیلنج کیا گیا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا تمام ہائی کورٹس نے ان معاملات کے حوالہ سے فیصلہ کرلیا ہے۔ اس پر فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں آیا جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل زیر التواہے، سندھ ہائی اورلاہور ہائی کورٹ نے ٹیکس پیئرز کے خلاف فیصلہ دیا ہے جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ تمام ہائی کورٹس کا فیصلہ آجائے ہم جون میں کیس کی سماعت کریں گے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اوربلوچستان ہائی کورٹ میں انکم ٹیکس ایکٹ 2001کی دفعہ 7-Eکو چیلنج کیا گیا ہے۔ 4جون سے ہم روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے معاملہ کافیصلہ کریں گے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے ہدایت کی کہ ہائی کورٹس کے فیصلے آئندہ سماعت پر عدالتی ریکارڈپر رکھے جائیں۔