بھارتی خفیہ ایجنسی”را”کی معاونت کرنے کے الزام میں گرفتار ملزم کی درخواست ضمانت خارج

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھارتی خفیہ ایجنسی”را”کی معاونت کرنے کے الزام میں گرفتار ملزم کی درخواست ضمانت خارج کرتے ہوئے ملزم کے وکیل کوضمانت کے لئے دوبارہ انسداد دہشت گردی عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ ٹرائل کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ سے متاثر ہوئے بغیر ملزم کی درخواست ضمانت پر دوبارہ غور کرے اور میرٹ پر فیصلہ کرے۔ جبکہ ایک اورکیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ریپ کیس میں6ماہ تک ڈی این اے اورفانزک سائنس لیبارٹی کی رپورٹ ہی نہیں آئے گی توکیا ہوگا، ڈی این اے کی رپورٹ ضروری ہے، اگریہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ملزم نے ویڈیو وائرل کی ہے توایک سیکنڈ درخواست ضمانت خارج ہونے میں نہیں لگے گا۔

سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بھارتی خفیہ ایجنسی”را”کے لئے سہولیت کاری کے الزام میں گرفتار ملزم محمد دین کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔درخواست میں ریاست پاکستان کو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے توسط سے فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست گزار کی جانب سے آفتاب عالم یاسر بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا وکیل درخواست گزار کے موئکل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے مئوکل بھارتی خفیہ ایجنسی”را”کی معاونت کررہے ہیں، درخواست گزار کے اکائونٹ میں بھارت سے اڑھائی لاکھ روپے کس چیز کے آئے تھے،

درخواست گزار افغان شہری ہے اوراس نے نادراسے شناختی کارڈ حاصل کیا ہے ، آپ کا بہنوئی اپنے بیان سے آپ کو پھنسوارہا ہے توعدالت کیا کرے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ اکائونٹ میرانہیں اور ڈیپازٹ سلپ میرے خلاف نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آپ کے مئوکل کاشناختی کارڈ کیوں بلاک ہے، فروری 2024کا آرڈر ہے، عدالت نے قراردیا ہے کہ آپ کا شناختی کارڈ بلاک ہے، آپ پتا کرتے کیوں بلاک ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ معیز احمد کون ہے۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ میرااس سے کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے بتایا کہ آپ کا کیس محمد دین سے مختلف ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ میں دوبارہ درخواست دائر کردیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ حارث اوررحمان کے کیسز کا حوالہ دے کردوبارہ ٹرائل کورٹ میں درخواست دائر کردیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ پیر محمد کااکائونٹ ہے اسے ملزم نہیں بنایا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ 3جنوری 2024کو ٹرائل کورٹ اوریکم فروری2024کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست گزار کی درخواست ضمانت خارج کی۔ عدالت نے درخواست ضمانت خارج کرتے ہوئے قراردیا کہ درخواست گزار دوبارہ ٹرائل کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کرے اور ٹرائل کورٹ دیکھ لے کہ رول آف کنسسٹینسی لاگو ہوتا ہے کہ نہیں اور میرٹ پر فیصلہ کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ عدالت اپنے فیصلے میں قراردیتی ہے کہ دی گئی آبزرویشنز عارضی نوعیت کی ہیں اور ان کا ٹرائل کورٹ میں جاری کیس کی کاروائی پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ جبکہ بینچ نے ریپ کیس میں گرفتار ملزم کاشف کی جانب سے دائر درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔ درخواست میں ریاست پاکستان کو ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوااوردیگر کے توسط سے فریق بنایا گیا تھا۔ دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی سید کوثر علی شاہ اورکیس کے تفتیشی پیش ہوئے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کیا موبائل فون اور میموری کارڈ فارنزک کے لئے لیبارٹری کو بھجوایا ہے۔ اس پر تفتیشی نے بتایا کہ 17اور18دسمبر کو موبائل فون اور میموری کارڈ پنجاب فارنزک لیبارٹری کو بھجوایا گیا تاہم ابھی تک رپورٹ نہیں ملی۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر کیا لیبارٹری کے ساتھ رابطہ نہیں اور خود جاکررپورٹ نہیں لیتے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ریپ کیس میں6ماہ تک ڈی این اے اورفانزک سائنس لیبارٹی کی رپورٹ ہی نہیں آئے گی توکیا ہوگا، ڈی این اے کی رپورٹ ضروری ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اگریہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ملزم نے ویڈیو وائرل کی ہے توایک سیکنڈ درخواست ضمانت خارج ہونے میں نہیں لگے گا۔عدالت نے شکایت کندہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فارنزک لیبارٹری سے رپورٹ بھی طلب کرلی۔ جبکہ بینچ نے چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو /سیکرٹری ریونیو ڈویژن اسلام آباد کی جانب سے سید مشتاق محسن، عبدالحمید،محمد وارث، ھاشم لطیف، امجد لطیف اوردیگر کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

درخواستوں میں فیڈرل سروسز ٹربیونل کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا تھا۔درخواست گزاروں کی جانب سے محمد ارشاد چوہدری بطور وکیل بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ 49لوگوں تو اسپیشل الائونس دے بھی دیا، اسپیشل الائونس کا کیا مسئلہ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار پہلے سروسز ٹربیونل گئے، پھر سپریم کورٹ آئے، پھر سروسز ٹربیونل چلے گئے یہ سلسلہ ہو گایا بار، بار سپریم کورٹ آتے رہیں گے۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ ریفارم یونٹ والوں کو 100فیصد بنیادی تنخواہ کے برابر اسپیشل الائونس دیا ہے اورفیلڈ فارمیشن والوں کو نہیں دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ 2005کے نوٹیفکیشن کے مطابق الائونس دینا ہے، ہمارے اپنے آرڈرز ہیں جن میں فیڈرزل سروسز ٹربیونل کے آرڈرز کی توسیق کی گئی ہے، درخواست گزار سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں پر نظرثانی کروانا چاہتے ہیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ جب فیڈرل سروسز ٹربیونل نے 49ملازمین کو الائونس دیا توآئین کے آرٹیکل 25کے تحت مدعا علیحان کیوں الائونس کے حقدار نہیں۔

سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ الائونس کاطلاق صرف ریفارم یونٹ پرہوتاہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ایف بی آرکوبتانا چاہیئے تھا کہ 49ملازمین کو کیوں الائونس دیا اورموجودہ مدعا علیحان کو کیوں نہیں دیا جارہا۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ 49ملازمین کی لسٹ بھی سپریم کورٹ کو فراہم نہیں کی گئی کہ یہ کہاں تعینات تھے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاحکمنامہ لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے فیڈرل سروسز ٹربیونل کا 14فروری2023کا فیصلہ چیلنج کیا گیا تھا۔ ایف بی آرکی جانب سے 14مئی 2005کو جاری نوٹیفکیشن میں بنیادی تنخواہ کے برابر 100فیصد خصوصی الائونس دیا گیا۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔

جبکہ بینچ نے پوسٹماسٹر جنرل، ناردرن پنجاب سرکل ، راوپنڈی اوردیگر کی جانب سے بلال احمد خان کے خلاف دائر درخواست پر سمات کی۔حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا اسداللہ خان اور مدعا علیہ کی جانب سے مس شیریں عمران بطور وکیل پیش ہوئیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ فیڈرل سروسز ٹربیونل نے مدعا علیہ کی دوسال کی انکریمنٹ روکی ہے اور نوکری سے برخاست کرنے کا محکمے کاآرڈر ختم کردیا۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ یہ سارا کچھ کب ہوا۔

اس پر رانا اسداللہ خان کا کہنا تھا کہ سب کچھ 2011سے2014تک ہوا۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آپ انتا عرصہ یہ سارا کچھ برداشت کرتے رہے، کیوں اکائونٹ اوردستخطوں کی تصدیق تاخیر سے کی جاتی تھی، اگلی درجہ بندی میں کیوں نہیں جاتے، ہر کوئی ذمہ داری ہے ، ایک ہی جگہ کیوں پھنس جاتے ہیں۔ جسٹس محمدعلی مظہر کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ فیڈرل سروسز ٹربیونل کا 18مئی 2023کا فیصلہ ہے جس میں مدعا علیہ کونوکری پر بحال کیا گیا ہے اوردوسال کی انکریمنٹ روکی گئی ہے۔ ایف ایس ٹی نے قراردیا کہ کوئی کرپشن اور خردبرد نہیں ہوئی تاہم مدعا علیہ نے ذمہ داریوں کی ادائیگی میں نااہلی برتی۔

عدالت نے قراردیا کہ فیڈرل سروسز ٹربیونل کے فیصلے میں مداخلت کا کوئی جواز نہیں۔ درخواست آئین کے آرٹیکل 212(3)کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے ریاست پاکستان کی جانب سے محمد افضل قیصر اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست میںقتل کیس میں ملزم کی بریت کو چیلنج کیا گیا تھا۔ دوران سماعت ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پیش ہوئے۔ جسٹس عائشہ ملک نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ زخمی گواہ کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیاجاتا،میں تواس حوالہ سے لکھوں گی کہ پراسیکیوشن نظام میں کتنی خرابیاں ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ پراسیکیوشن کیس کی تحقیقات میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔