وزیراعظم کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات،حکومت کا ہائیکورٹ ججز خط کے معاملے پر انکوائری کرانے کا اعلان

اسلام آباد(صباح نیوز)وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کرانے کا اعلان کردیا۔اس بات کا اعلان وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ  نے وزیراعظم چیف جسٹس ملاقات کے بعد اٹارنی جنرل انور منصور کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کیا ،اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط والے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی سے وزیراعظم شہباز شریف کی سپریم کورٹ میں ملاقات ہوئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات ایک گھنٹہ 20 منٹ تک جاری رہی، چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے لکھے گئے خط کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے لیے پیغام بھجوایا تھا۔ملاقات میں وزیراعظم کے ہمراہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان بھی شامل تھے۔ سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصورعلی شاہ بھی ملاقات میں موجود تھے،ملاقات کے بعدچیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس دوبارہ طلب کرلیا،ملاقات کے بعد وفاقی وزیر قانون نے پریس کانفرنس میںکہا کہ گزشتہ روز معاملے پر چیف جسٹس نے فل کورٹ میٹنگ کی،

چیف جسٹس نے خواہش ظاہر کی معاملے پر وزیر اعظم سے بھی مشاورت کی جائے۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے خواہش کا اظہار کیا، وزیراعظم نے فوری طور پر ملاقات کے لیے رضامندی ظاہر کی، آج وزیراعظم کی چیف جسٹس اور سینئر ججز سے ملاقات ہوئی جو ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی اور ملاقات بڑے خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ ملاقات میں خط سمیت ٹیکس اور دیگر معاملات پر بات چیت ہوئی، جو خط سامنے آیا اس کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر دھوم تھی، سب سے پہلے خط کی چھان بین ضروری ہے، وزیراعظم نے واضح کیا کہ عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہوگا، اور یقین دہانی کروائی کہ اس معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ماضی میں بھی اس طرح کی آوازیں آتی رہی ہیں، وزیراعظم اور ان کا خاندان خود زیر عتاب رہا ہے، ایسا واقعہ ہے تو مستقبل میں اس کی روک تھام ہوگی۔انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس  آج جمعہ کو ہوگا، وزیراعظم کل خط کا معاملہ کابینہ کے سامنے رکھیں گے، کابینہ اجلاس میں کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دیا جائے گا، جبکہ غیر جانبدار شخصیت انکوائری کمیشن کی سربراہی کرے گی۔وزیر قانون نے کہا کہ کسی بھی ادارے کی معاملے میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، اچھی ساکھ والے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کرائی جائیگی، جبکہ انکوائری کے ٹی او آرز میں اس خط اور ماضی کے معاملات بھی شامل ہوں گے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ عدلیہ پر چھوڑتے ہیں کہ ججز کا معاملہ مس کنڈکٹ ہے یا نہیں۔ٹی او آرز  میں اس خط اور ماضی کے معاملات بھی شامل ہوں گے، ہم سمجھتے ہیں یہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، اس کی انکوائری ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے لیے بہت سے ججزز کا نام زیرغور ہیں۔ چیف جسٹس نے بھی تحقیقاتی کمیشن بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ کسی ریٹائرڈ جج سے درخواست کی جائے گی کہ اس معاملے کی تحقیقات کریں۔اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ تمام آئینی اداروں کو اپنی حدود میں رہ کام کرنا چاہیے۔

ادارہ جاتی مداخلت کسی صورت قابل قبول نہیں،ان کا کہنا تھا کہ  تاریخ فیصلہ کرتی ہے کون غلط ہے کون نہیں، ہائی کورٹ کے ججز ایک مقدس فریضہ انجام دیتے ہیں، ہرکسی کی اپنی اپنی ڈیوٹیز ہیں، میں سمجھتا ہوں جب ایسے معاملات آئیں تو ان کو دبایا نہ جائے۔انہوں نے مزیدکہا کہ وزیراعظم نے ملاقات میں اہم مسائل کی نشاندہی کی، ملاقات میں بعض اہم قومی امور بشمول ٹیکس معاملات پر بات ہوئی۔واضح رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے عدالتی کاموں  خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت اور دباو میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا خط سامنے آیا تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

خیال رہے کہ اس معاملے پر گزشتہ روز بھی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی زیر صدارت سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ہوا تھا، اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر غور کیا گیا اور ججز کے خط کی آئینی و قانونی حیثیت کا جائزہ لیا گیا۔قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے ملاقات کی تھی۔۔