کیا ایف بی آرنے کبھی ایس اوپیز بنائے ہیں کہ اس کے افسران کیسے اپنے اختیارات استعمال کریں ؟ سپریم کورٹ کا استفسار

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے استفسار کیا ہے کہ کیا ایف بی آرنے کبھی ایس اوپیز بنائے ہیں کہ اس کے افسران کیسے اپنے اختیارات استعمال کریں۔ کیا ایف بی آر بورڈ کبھی اس معاملہ پر غورکے لئے بیٹھا ہے۔ کیاایف بی آر والے کسی کو کسی بھی جگہ روک سکتے ہیں۔ فتح جنگ میں بغیر کسٹم ڈیوٹی اداکیا گیا سامان کا کنٹینر پکڑا گیا اس حوالہ سے بتائیں کہ کس نے اطلاع دی تھی۔ ویسے ہی تواٹھ کر نہیں چلے گئے ہوں گے کوئی ریڈنگ ٹیم بنی ہو گی۔ جس اطلاع پر کنٹینر پکڑا وہ اطلاع ہمیں دکھائیں۔جبکہ دوسرے کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہائی کورٹ کے پاس ازخود نوٹس کا اختیار نہیں ہم ملازمین کی ریگولرائزیشن کا معاملہ واپس پشاور ہائی کورٹ کو بھیج رہے ہیں عدالت تین ماہ میں میرٹ پر دلائل سن کرکیس کادوبارہ فیصلہ کرے۔ ہمارے ہاں توقانونی باتیں ہی ہوتی ہیں، کیا ہمارے ہاں غیر قانونی باتیں بھی ہوتی ہیں۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعہ کے روزسپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 1میں مختلف کیسز کی سماعت کی۔بینچ نے ایف بی آر کی جانب سے امجد علی اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت ممبر کسٹم ایف بی آر بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سیٹلڈ ایریا میں شہری کے حقوق ہیں اس کو روکنے کے لئے کوئی جواز ہونا چاہیئے۔ جسٹس سید منصوعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا ایف بی آر والے کسی کو کسی بھی جگہ روک سکتے ہیں،اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ سے بغیر کسٹم ادائیگی والا سامان دوکانوں سے مل جاتاہے کیا میںکوئی چیز لے کر نکلوں توایف بی آر والے مجھے روک لیں گے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ فتح جنگ میں بغیر کسٹم ڈیوٹی اداکیا گیا سامان کا کنٹینر پکڑا گیا اس حوالہ سے بتائیں کہ کس نے اطلاع دی تھی۔ اس پر ممبر کسٹم کا کہنا تھاکہ انفارمرز ہوتے ہیں، یہ خفیہ اطلا ع ہوتی ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ویسے ہی تواٹھ کر نہیں چلے گئے ہوں گے کوئی ریڈنگ ٹیم بنی ہو گی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ بتانا ہو گا کہ آپ نے جہاں سے خریدا ہے ہم نے وہاں سے ٹریس کیاہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم پراسیس کو درست کرنا چاہتے ہیں اوراس کو فکس کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ جس اطلاع پر کنٹینر پکڑا وہ اطلاع ہمیں دکھائیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھاکہ کیا ایف بی آرنے کبھی ایس اوپیز بنائے ہیں کہ افسران کیسے اپنے اختیارات استعمال کریں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ڈیٹینشن میمو کا بینگ گروائونڈ کیا تھا۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم اختیارات ختم نہیں کرنا چاہتے بلکہ ہم پراسیس سمجھنا چاہتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ممبر کسٹم سے استفسار کیا کہ گزشتہ 10سال کے دوران کا کوئی ایسا واقعہ بتادیںکہ ایک افسر نے پکڑ ااورسینئر افسر نے چھوڑ دیا ہو، اُدھر سے نیب بھی آجاتی ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہناتھا کہ بنیادی حقوق کاسوال ہے اس لئے ٹیسٹ بھی ہائی ہونا چاہیئے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھاکہ کیا ایف بی آر بورڈ کبھی اس معاملہ پر غورکے لئے بیٹھا ہے۔جسٹس سید منصورعلی شاہ نے حکم لکھواتے ہوئے کہا ممبر کسٹم ایف بی آر نے مزید دستاویزات ریکارڈ پر لانے کے لئے وقت دینے کی استدعاکی۔ عدالت نے کیس کی سماعت 2جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے ممبر کسٹم ایف بی آر کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر خود عدالت میں پیش ہوں۔ بینچ نے حسین بشیر، شبیر احمد، سید مظہر شاہ اوردیگر کی جانب سے چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اوردیگر کے توسط سے حکومت خیبر پختونخوا کے خلاف دائردرخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا تھا جس میں عدالت نے ملازمین کو ریگولرائز کرنے کے بجائے قانون کوہی کالعدم قراردے دیا۔

درخواست گزاروں کی جانب سے محمد شعیب شاہین ایڈووکیٹ اور مس عائشہ ملک بطور وکیل پیش ہوئیں جبکہ کے پی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس پیش ہوئے۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ ریگولرائزیشن کا معاملہ دیکھتی، عدالت نے توقانون ہی قانون کالعدم قراردے دیا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ میں بینچ کے سامنے قانونی بات کروں گا۔ اس پر جسٹس منصورعلی شاہ کا انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے ہاں توقانونی باتیں ہی ہوتی ہیں، کیا ہمارے ہاں غیر قانونی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ عدالت نے قراردیا کہ یہ منی بل کے زریعہ ہونا چاہیئے تھا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے پاس ازخود نوٹس کا اختیار نہیں ہم معاملہ واپس ہائی کورٹ کو بھجوادیتے ہیں کہ وہ میرٹ پر سن کر فیصلہ کرے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا حکم ملنے کے تین ماہ کے اندر ہائی کورٹ معاملہ کافیصلہ کرے۔