سات اکتوبر کے ٹھیک ایک ماہ بعد موقر اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ میں خبر شایع ہوئی کہ لگ بھگ دو سو بھارتی نژاد اسرائیلی شہری غزہ اور لبنان کی سرحد پر موجود عسکری یونٹوں سے منسلک ہیں۔ان کا تعلق شمال مشرقی بھارتی ریاست منی پور اور میزو رم میں آباد کوکی قبیلے کی ایک شاخ بنی مناشے سے ہے۔اگرچہ کوکیوں کی اکثریت مسیحی ہے مگر بنی مناشے برادری کے تقریبا نو ہزار ارکان یہودیت کے دعویدار ہیں۔
گزشتہ مئی میں ریاست منی پور میں جو نسلی فسادات ہوئے ان میں لگ بھگ ڈیڑھ ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ زیادہ جانی و مالی نقصان کوکی قبیلے کا ہوا۔چنانچہ منی پور کی یہودی برادری بھی جان بچانے کے لیے ہمسائیہ ریاست میزورام منتقل ہو گئی۔کوکی قبیلے کو اکثریتی حریف ہندو قبیلے میتیز کے حملوں کا اکثر سامنا رہتا ہے۔
بنی مناشے یہودیوں کے بھی لگ بھگ پانچ سو گھر اور دو معبد نذرِ آتش کر دیے گئے۔ اب وہ جلد از جلد اسرائیل منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ فسادات کے بعد اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے نئی دلی کا دورہ کیا۔مگر انھوں نے مودی حکومت کی حساسیت کے پیشِ نظر منی پور کے بارے میں اسرائیلی تشویش کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
بنی مناشے کا دعوی ہے کہ وہ بنی اسرائیل کا دسواں قبیلہ ہیں جو ستائیس سو برس قبل آشوریوں کے حملے کے نتیجے میں جلاوطنی کے دھندلکوں میں گم ہو گیا۔ایران و وسطی ایشیا سے سفر کرتا کرتا چین جا پہنچا اور وہاں سے وقت کے ساتھ ساتھ کھسکتا ہوا شمال مشرقی بھارت میں آ کے ٹھہر گیا۔
انیس سو پچاس میں ریاستِ اسرائیل نے واپسی کا قانون منظور کیا۔اس کے تحت وہ تمام لوگ جو ثابت کر سکیں کہ ان کے داد پردادا میں سے کوئی ایک یہودی عقیدے پر قائم تھا۔ان سب کو اسرائیل میں آباد ہونے کی اجازت ہے۔
اس قانون کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ دو سال قبل ( انیس سو اڑتالیس ) جب اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا تو فلسطین میں یورپ سمیت دنیا بھر سے آئے یہودی مہاجروں کی آبادی ساڑھے سات لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اسرائیلی قیادت اس تعداد میں تیزی سے بڑھاوا چاہتی تھی تاکہ فلسطینی اکثریت کے مقابلے میں آبادی کا توازن جلد از جلد یہودیوں کے حق میں ہو سکے۔چنانچہ خود کو یہودی النسل ثابت کرنے کی شرائط میں بھی نرمی کر دی گئی۔
جب یہ خبر بھارت پہنچی تو انیس سو اکیاون میں منی پور کے ایک کوکی معزز میلا چالا نے دعوی کیا کہ اسے بشارت ہوئی ہے کہ ہماری اصل جنم بھومی اسرائیل ہے۔چنانچہ سیکڑوں کوکیوں نے باضابطہ یہودی مذہبی رسوم و رواج اپنانے شروع کیے۔یروشلم کی ہیبرو یونیورسٹی کے ایک محقق پروفیسر شلوا وائل نے انیس سو اسی میں اسرائیل کے چیف رباعی ایلیاہو اویچل کے ہمراہ بھارت کا دورہ کیا اور انھیں بنی مناشے برادری سے ملوایا۔مگر ان لوگوں کے پاس اپنے یہودی پس منظر کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں تھا۔سوائے اس کے کہ وہ سنیچر کو ثبات کی چھٹی کرتے تھے یا انھوں نے داستان سن رکھی تھی کہ کس طرح مصری یہودیوں نے بحرِ قلزم پار کر کے صحراِ سینا میں ہجرت کی اور یہ کہ بنی اسرائیل کا ایک قبیلہ گمشدہ ہے۔
دو ہزار پانچ میں اسرائیلی چیف رباعی نے ان کے یہودی النسل ہونے کا دعوی تسلیم کر لیا اور مذہبی سند جاری کر دی۔اسرائیل پہنچنے والے بنی مناشے کو باضابطہ قدامت پرست فرقے میں شامل کیا گیا اور عبرانی زبان سکھانے کے انتظامات کیے گئے۔
پچھلے تیس برس میں لگ بھگ ساڑھے تین ہزار بنی مناشے اسرائیلی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔جب کہ دیگر پانچ ہزار بھی بھارت سے اسرائیل منتقل ہونے کے منتظر ہیں۔گزشتہ برس اسرائیلی پارلیمنٹ کے مطالبے پر نیتن یاہو حکومت نے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس کا کام باقی ماندہ بنی مناشے کو اسرائیل منتقل کرنا اور شہریت دینے کے عمل کو آسان اور تیز بنانا ہے۔گزشتہ برس منی پور کے نسلی فسادات میں جن مقامی یہودیوں کا مالی نقصان ہوا۔اس کی بھرپائی کے لیے بھی اسرائیل نے سرکاری امداد بھیجی ۔
مگر میزورام کے ایک مقامی محقق کا کہنا ہے کہ بظاہر تو بنی مناشے یہی کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچھڑے ہوئے وطن میں واپس جا کر اصل جڑوں سے جڑنا چاہتے ہیں مگر ذرا سا کریدا جائے تو اکثر بنی مناشے بالخصوص نوجوان نسل بہتر معاشی مواقع اور آسودگی کی تلاش میں اسرائیل منتقل ہونا چاہتی ہے۔
جب ان سے کہا جائے کہ آپ بھارت میں ہزاروں برس سے رہ رہے ہیں اور دنیا میں لاکھوں یہودی ایسے ہیں جو اسرائیل سے باہر رہ کر بھی مطمئن زندگی گذار رہے ہیں۔اس پر ان کا جواب ہوتا ہے کہ چونکہ وہ طبعا جنگجو ہیں لہذا ان کی ہجرت سے خود ریاستِ اسرائیل کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ان کی پہلی خواہش یہ ہے کہ وہ اسرائیل پہنچ کر فوج میں بھرتی ہوں۔یہ وہ نوکری ہے جسے تمام اسرائیلی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
میزو رام کی بنی مناشے کونسل کے سربراہ تھنسیما تھمتے کے بقول اب تک جتنے بنی مناشے اسرائیل منتقل ہوئے ہیں ان میں سے ننانوے فیصد نے فوج میں بھرتی کے لیے نام لکھوایا ۔بلکہ غزہ میں فلسطینیوں سے مصروفِ جنگ معروف اسرائیل گولانی بریگیڈ میں بھی درجن بھر بنی مناشے عسکری خدمات انجام دے رہے ہیں۔کئی بنی مناشے ان بٹالینوں میں بھی شامل ہیں جو شمالی سرحد پر حزبِ اللہ کے جنگجووں سے برسرِ پیکار ہیں۔
اگرچہ روس اور یوکرین کی جنگ چھڑنے کے بعد اسرائیلی حکومت نے ہزاروں یوکرینی یہودیوں کو بلارکاوٹ تیزی سے اسرائیل منتقل کیا۔مگر بنی مناشے کے یہودی ہونے کا دعوی چونکہ اب بھی اسرائیل کی حکمران اشکنازی اشرافیہ ( مشرقی یورپ کے سفید فام یہودی ) کے نزدیک قدرے مشکوک ہے۔لہذا جن بنی مناشے کو اسرائیل منتقل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے پہلے ان کا یہودی رباعی بھارت جا کے تفصیلی انٹرویو لیتے ہیں اور ان کی توثیقی منظوری کے بعد ہی امیگریشن کی اجازت ملتی ہے۔
لگ بھگ چالیس برس پہلے ایتھوپیا کے سیاہ فام فلاشا یہودیوں کی جڑوں کے بارے میں کئی برس تحقیق کے بعد ہی انھیں اسرائیل منتقل کیا گیا۔مگر فلاشاز کی اکثریت آج بھی اسرائیل میں ادنی نوکریاں کر رہی ہے۔ان کے برعکس بنی مناشے چونکہ جنگجو مشہور ہیں اس لیے اسرائیلی سماج میں ان کے جذب ہونے کی رفتار فلاشاز کی نسبت زیادہ تیز ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت پچاسی ہزار بھارتی نژاد یہودی اسرائیل میں آباد ہیں۔ ان میں سب سے بڑی تعداد ( پچھتر ہزار ) خود کو بنی اسرائیلی کہلاتے ہیں جو مہاراشٹر میں ممبئی اور کونکن کے علاقوں میں صدیوں پہلے آباد ہوئے۔ مگر اب صرف چار ہزار بنی اسرائیلی ہی بھارت میں رہ رہے ہیں۔
جنوبی بھارت کے علاقے کوچین میں بھی صدیوں سے قلیل تعداد میں یہودی آباد ہیں۔ سن سترہ سو نوے کے بعد سے سیکڑوں عراقی ، شامی ، یمنی یہودی بھی ممبئی آ کر بس گئے۔ انھیں بنی مناشے کی نسبت شفاف شجرے کے سبب اسرائیلی شہریت زیادہ آسانی سے مل گئی۔یہ پچاسی ہزار یہودی بھارت اور اسرائیل کے درمیان ایک موثر اسٹرٹیجک رابطے کا ستون ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس