2012کے سروس رولز میں 2020میں کی گئی ترامیم کے خلاف سروسز ٹربیونل کا فیصلہ برقرار، خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے دائر اپیلیں خارج


اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سنیارٹی کبھی بھی حکومت کا پالیسی معاملہ نہیں ہوسکتا، کسی کی سنیارٹی پالیسی کی وجہ سے کیسے تبدیل کرسکتے ہیں۔ وکلاء کی کوئی سنیارٹی لسٹ نہیں ہوتی، دکھائیں کہ سنیارٹی پالیسی معاملہ ہے۔ 2020میں کون سال قانون بنا ہے اس کی شکل دکھا دیں، اس کا ٹیکسٹ دکھا دیں، اِس میںیہ جملہ جوڑ دیں، اُس میں وہ جملہ جوڑ دیں ہمیں کیا پتا کیا رولز بنائے ہیں، اس کی شکل دکھادیں۔ قابل احترام سروسز ٹربیونل کیا ہوتا ہے صرف سروسز ٹربیونل ہوتا ہے، دنیا میں انگریز اس طرح کے لفظ استعمال نہیں کرتا ہے، قانون کو چھوڑیں،بتائیں فیصلے میں غلطی کیا ہے۔جبکہ عدالت نے سب انجینئرز کی محکمانہ سنیارٹی کے حوالہ سے 2012کے سروس رولز میں 2020میں کی گئی ترامیم کے خلاف سروسز ٹربیونل کے فیصلہ کو برقراررکھتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کی سے دائر اپیلیں ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے خیبرپخونخواحکومت کی جانب سے چیف سیکرٹری اوردیگر کے توسط سے اشرف خان اور سید مہر علی شاہ کے خلاف سب انجینئرز کی ترقیوں کے معاملہ پر خیبرپختونخواسروسز ٹربیونل کے فیصلہ کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت کی۔ کے پی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پیش ہوئے جبکہ مدعا علیہان کی جانب سے احمد علی ایڈووکیٹ اور بیرسٹر عمر اسلم خان بطور وکیل پیش ہوئے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کا کہنا تھا کہ یہ سب انجینئرز کی پوسٹوں کا معاملہ ہے، بطور سب انجیئر سنیارٹی کے لئے بی ٹیک آنرز کی ڈگری کی شرط رکھی گئی ہے۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخواسروسز ٹربیونل نے قراردیا کہ پروموشن تعیناتی کی تاریخ سے تصور ہو گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 2020میں کون سال قانون بنا ہے اس کی شکل دکھا دیں، اس کا ٹیکسٹ دکھا دیں، اِس میںیہ جملہ جوڑ دیں، اُس میں وہ جملہ جوڑ دیں ہمیں کیا پتا کیا رولز بنائے ہیں، اس کی شکل دکھادیں۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کی جانب سے قابل احترام سروسز ٹربیونل کالفظ ااستعمال کرنے پرچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ قابل احترام سروسز ٹربیونل کیا ہوتا ہے صرف سروسز ٹربیونل ہوتا ہے، دنیا میں انگریز اس طرح کے لفظ استعمال نہیں کرتا ہے، قانون کو چھوڑیں،بتائیں فیصلے میں غلطی کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ایسی بات ہے کہ وکیل بننے کے لئے ایل ایل ایم کی ڈگری درکار ہے، کچھ عقل کی بات کریں۔ وکیل احمد علی کے دلائل کے دوران بولنے پر چیف جسٹس نے وکیل بیرسٹر عمراسلم خان کی سخت سرزنش کرتے ہوئے انہیں بیٹھنے اورآئندہ دوسرے وکیل کے دلائل میں مداخلت نہ کرنے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصلے میں خرابی کیا ہے بتادیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ سروسز ٹربیونل نے 25فروری2012کے رولز کو برقراررکھا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 2020میں رولز میں تبدیلی کرکے پورا سروس کااسٹرکچر تبدیل کررہے ہیں، 2020کے قانون میں کیا تبدیلی کی گئی ہے کوئی وکیل سوال کا جواب دینے کو تیار نہیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ مہرعلی شاہ کاتوکیس بنتا ہی نہیں اس نے توامتحان پاس کیا ہی نہیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ 21جولائی2020کو اشرف خان نے بی ٹیک آنرز کی ڈگری حاصل کر لی اوراس کا نام سنیارٹی میں 30ویں نمبر پر ڈال دیا۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ بی ٹیک آنرز کی ڈگری 2020میں کی اور 2012سے ترقی کا دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں۔ وکیل احمد علی کا کہنا تھا کہ 2020میں رول تبدیل ہوا اگر پہلے رول تبدیل ہوتا تومیں پہلے پروموشن کے لئے بی ٹیک آنرز کی ڈگری کرلیتا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ من پسند لوگوں کو حکومت کی جانب سے ترقی دی گئی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ من پسند کے الفاظ کی تقریرباہر جاکرکریں، قانون کی بات کریں، کیا لوگوں کی آنکھیں بلیو تھیں۔چیف جسٹس کا وکیل کے جزباتی ہونے پر کہنا تھا کہ کشتی یا لڑائی تونہیں کرنی،ریلیکس، تسلی سے بات سمجھائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا عمر اسلم خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو ترجیح کیسے دی جائے، اگر دستاویزات فراہم نہیں کرسکتے توکیوں وکالت کررہے ہیں۔ وکیل احمد علی کا کہنا تھا کہ ہمارا مسئلہ پروموشن کانہیں بلکہ سنیارٹی کا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پرنسپل آف لاء کے حوالہ سے بات کریں یہ سپریم کورٹ ہے ، تیرے، میرے کو چھوڑیں، کوئی بھی آدمی قانون کے حوالہ سے دلائل نہیں دے رہا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ متعلقہ چیز یہ ہے کہ سب انجینئر کب بنے۔ بیرسٹر عمر اسلم خان کاکہنا تھا کہ میں حکومتی مئوقف کی حمایت کرتا ہوں۔

جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ یہ پالیسی معاملہ نہیں بلکہ رولز میں ترمیم کی ہے، اس میں سروسز ٹربیونل کااختیار ہے، میرے خیال میں سروسز ٹربیونل نے درست فیصلہ کیا ہے، 2012کا قانون ااج بھی فیلڈ میں ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ رولز آف سروس میں سنیارٹی آتی ہے اس لئے ٹربیونل فیصلہ نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سنیارٹی کبھی بھی حکومت کا پالیسی معاملہ نہیں ہوسکتا، کسی کی سنیارٹی پالیسی کی وجہ سے کیسے تبدیل کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکلاء کی کوئی سنیارٹی لسٹ نہیں ہوتی، دکھائیں کہ سنیارٹی پالیسی معاملہ ہے۔

جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ 2012کے قانون کے تحت دوبارہ سنیارٹی لسٹ بنے گی اورجس کو اعتراض ہو گا وہ دوبارہ سروسز ٹربیونل چلا جائے گا۔ چیف جسٹس نے فیصلہ لکھواتے ہوئے کہا کہ 29ستمبر2021کو خیبرپختونخواسروسز ٹربیونل نے 10جولائی 2020کو خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے سروس رولز میں تبدیلی کا نوٹیفیکیشن کالعدم قراردے دیا۔ 25جون 2012کے سروس رولز میں سب انجینئرز کی سنیارٹی کے حوالہ سے معیار مقررکیا گیا ہے۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ سروسز ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں جامع انداز میں معاملہ پر روشنی ڈالی ہے۔کے پی حکومت کا فیصلہ 1973کے وفاقی حکومت کے سروس رولز اور خیبرپختونخوا حکومت کے سروس رولز 1989کی خلاف ورزی ہے اس لئے اس فیصلہ کو برقرارنہیں رکھا جاسکتا۔ عدالت نے قراردیا کہ کے پی سروسز ٹربیونل کا فیصلہ درست ہے۔ عدالت نے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے سروسز ٹربیونل کے فیصلہ کے خلاف دائر اپیلیں ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردیں۔