عوام کو صحت، تعلیم، صفائی،صاف پانی جیسی بنیادی سہولتیں بھی دستیاب نہیں۔ محمد جاوید قصوری

لاہور (صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام کو آئی ایم ایف کا غلام بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔ملک معاشی لحاظ سے بدترین صورتحال سے دوچار ہے ۔جماعت اسلامی کا کردارقوم کے سامنے اور امیدوارمیدان میںہیں۔حقیقی تبدیلی کے لئے ملک وقوم کو درپیش مسائل کاحل صرف جماعت اسلامی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور اور گوجرانوالہ میں مختلف پروگرامات سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف پاکستان پچھلے 25 سالوں سے ایک ایٹمی قوت ہے مگر اس کی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد ابھی بھی غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ حکمرانوںکی عاقبت نااندیش پالیسیوںکی بدولت غربت کے اعدادوشمار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔2018 میں پاکستان کی آبادی کی 31.3 فیصد تعداد یعنی تقریباً سات کروڑ غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہی تھی ۔2020 میں یہ تعداد 40فیصد تک بڑھ کر، آٹھ کروڑ 70 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ،جبکہ دوسری جانب2023 میں ایسے افراد کی تعداد ساڑھے نو کروڑ سے زائد ہوچکی ہے جن کی یومیہ آمدن 3.20 ڈالر یعنی تقریبا 950 روپیسے بھی کم ہے۔ یہ پاکستان کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی سے بھی زائد حصہ بنتا ہے۔ ملک میں غربت میں کمی کا عمل رک گیا ہے، جس پر عالمی ماہرین معیشت اور ادارے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق حکومت نے مالی سال 2023 میں 13 ہزار 7 ارب روپے قرض لیا ہے۔مالی سال 2023 کے اختتام پر حکومت کا قرض 60 ہزار 839 ارب روپے ہے۔ ملک میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح میں دس سال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ شہروں میں رہنے والے 7.4 فی صد نوجوان لڑکے اور 10.4 فی صد خواتین بے روزگار ہیں۔عوام کو صحت، تعلیم، صفائی،صاف پانی جیسی بنیادی سہولتیں دست یاب نہیںہیں۔ پاکستان کے شہروں میں مقیم 47 فی صد گھرانوں میں گنجائش سے زائد لوگ رہنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں فی کس آمدن جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے کم ہے ۔محمدجاوید قصوری  نے مزید کہا کہ 1980 کی دہائی میں پاکستان کی فی کس آمدنی جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ تھی لیکن اب اس کا شمار خطے کی کم ترین آمدن والے ممالک میں ہوتا ہے۔ بدترین حکمرانی کے نتائج نے حالات اس قدر خراب کردیے ہیں کہ اب محض زبانی دعووں سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں