کمزورافراد اور خواتین کو ان کے قانونی حقوق سے محروم کرنا ناقابل برداشت ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی

 اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ کمزورافراد اور خواتین کو ان کے قانونی حقوق سے محروم کرنا ناقابل برداشت ہے۔ جبکہ چیف جسٹس نے باپ کی جائیداد سے بہنوں کو حصہ نہ دینے والے درخواست گزاروںپر 5لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے ریونیو حکام کوہدایت کی ہے کہ وہ یہ رقم ان افرادمیں تقسیم کریں جنہیں وراثت سے محروم رکھا گیا۔

جبکہ عدالت نے درخواست گزاروںاورمدعاعلہیان کے مرحوم والد شاہ جہاں کی جائیدادتمام قانونی لواحقین کے درمیان شریعت میں دیئے گئے طریقہ کارکے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ حکمنامہ کی کاپی متعلقہ ریونیو حکام کوبھجوائی جائے جو کہ عملدآمد رپورٹ ممبر بورڈ آف ریونیو کے پاس جمع کروائیں گے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بخت بلال خان اوردیگر کی جانب سے زاہد خان اوردیگر کے خلاف والد کی جائیداد سے بہنوں کوحصہ نہ دینے کے معاملہ پر دائر کیس کا2صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن نے 30ستمبر2024کوکیس کی سماعت کی تھی۔

درخواست گزاروںکی جانب سے اٹلس خان داگئی نے سپریم کورٹ پشاوررجسٹری سے ویڈیو لنک کے زریعہ پیش ہوکردلائل دیئے تھے۔ چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا ہے کہ درخواست گزاروں کے وکیل نے بتایا کہ شاہ جہاں 17اگست1988کو فوت ہوا جس کے بعد زمین کی وراثت کے انتقال کی 31جولائی1997کوتصدیق کی گئی اور ریونیو ریکارڈ میں اندراج کیا گیا۔ زمین کی وراثت کے انتقال میں شاہ جہاں کی بیٹیاں بھی شامل تھیں۔ وکیل کاکہنا تھاکہ شاہ جہاں نے اپنی زندگی میں اپنی بیٹیوں کو کچھ رقم تحفہ دی تھی اورجہیز بھی دیا تھا اس لئے انہیں زمین کی وراثت سے خارج کیا جائے۔ درخواست گزاروں نے وراثت کے انتقال کے خلاف دعوی دائر کیااور شاہ جہاں کی بیٹیوں کو نکالنے کی استدعا کی۔ دعوی15ستمبر2010کو خارج ہوگیا۔ درخواست گزاروں نے دعوی خارج ہونے کے خلاف اپیل دائر کی جوکہ 25جنوری 2011کو خارج ہوگئی۔ درخواستوں گزاروں نے بیٹیوں کے وراثت میں حق کو چیلنج کرنے کاسلسلہ جاری رکھا اور دوماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کی جوکہ 23اپریل 2012کو مستردکردی گئی۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہمارے سوال پر کہ بیٹیوں کے حصہ کی زمین پر کون قابض ہے تو وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ درخواست گزاروں کے پاس قبضہ ہے۔ ہمارے مزید سوال کرنے پر کہ آیا درخواست گزاروں کی استدعا اسلامی شریعہ کے مطابق ہے تووکیل کی جانب سے بتایا گیاکہ عدالتوں نے اس بات کافیصلہ نہیں کیا کہ شاہ جہاں نے متذکرہ بالاتحفہ بیٹیوں کودیا تھاکہ نہیں لہذا انہیں والدکی جائیدادسے خارج کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا ہے وکیل کی یہ دلیل مکمل طور پر شریعت اورپاکستان کے قانون کے خلاف ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بھائیوں کی جانب سے اپنی بہنوں کو وراثت محروم کرنے کامثالی کیس ہے اورایسا کئی دہائیوں تک کیا گیا۔ درخواست گزاروں کی بے بنیاد مقدمہ بازی میں حوصلہ افزائی اس وجہ سے ہوئی کہ ان پرنا قابل برداشت دعوی دائر کرنے پر مثالی جرمانہ عائد نہیں کیا گیا۔جبکہ ریونیو حکام کو بھی ہدایت نہیں جاری کی گئی کہ تمام لواحقین کوشمار کیاجائے ااورکسی کو بھی اس کے حق سے محروم نہ کیا جائے۔ بھائیوں کی جانب سے والد کی جائیدادسے بہنوں کو وراثت سے محروم کیا گیا اوربے بنیادمقدمہ دائر کیا گیا جو کہ دھائیوں جاری رہا اور بالآخر ہمارے سامنے آیا ہے، جو کہ نظام عدل میں چوتھی اورسب سے آخری عدالت ہے۔ عدالت کاقیمتی وقت ضائع کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا ہے کہ کمزورافراد اور خواتین کو ان کے قانونی حقوق سے محروم کرنا ناقابل برداشت ہے۔ چیف جسٹس نے فیصلہ میں لکھا ہے کہ یہ درخواست کبھی دائر ہی نہیں کی جانی چاہیئے تھی کیونکہ اس میں تجویز دی گئی ہے شریعت اورقانون کوختم کردیا جائے۔ چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خاری کی جاتی ہے اور درخواست گزاروں پر 5لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جو کہ درخواست 3ماہ کے اندرمتعلقہ اتھارٹی کے پاس جمع کروائیں گے اورمتعلقہ اتھارٹی یہ رقم ان مدعاعلیہان میں تقسیم کرے گی جن کووراثت سے محروم رکھا گیا۔اگر درخواست گزاریہ رقم جمع نہ کروائیں توپھر ان کی زمین بیچ کریہ رقم وصول کی جائے اورمدعا علیہان میں تقسیم کی جائے۔ چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ریونیو حکام کومزیدہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس بات کویقینی بنائیں کہ مرحوم شاہ جہاں کی زمین تمام قانونی لواحقین میں شریعت میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق تقسیم کی جائے ۔ فیصلے کی کاریونیو حکام کوبھجوائی جائے جو عملدرآمد رپورٹ ممبر بورڈ آف ریونیو کوجمع کروائیں۔ چیف جسٹس نے حکمنامہ میں لکھا ہے کہ فیصلے کی کاپی مدعاعلیہان کو بھی بھجوائی جائے۔