ہائیرایجوکیشن کمیشن کا مطالعہ پاکستان کو نصاب سے ختم کرنا نئی نسل کو نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان سے گمراہ کرنے کا منصوبہ ہے،پروفیسر محمدابراہیم خان


پشاور(صباح نیوز)نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان وڈائریکٹر جنرل نافع پاکستان پروفیسرمحمدابراہیم خان نے ہائیرایجوکیشن کمیشن کے بی اے،بی اے سی سمیت آنرز کی تمام ڈگریوں میں مطالعہ پاکستان کا مضمون ختم کرنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نظریہ پاکستان تاریخی سیاق و سباق کے حوالے سے ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔اس نظریے سے مسلمانوں کو دین اسلام کے مطابق راہنمائی حاصل ہوتی ہے اور انھیں دینی اور سماجی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔ 1956، 1962،اور1973کے تمام دساتیر میں اسی نظریہ پاکستان کا تحفظ کیا گیا ہے۔ پاکستانی قوم پہلے ہی تنازعات کا شکار ہے ۔نظریہ پاکستان سے روگردانی ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی اور ہمیں بھیانک نتائج کاسامنا کرنا پڑے گا۔فکری اِعتبار سے قوم کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا، ترقی و استحکام کی راہیں مسدوداور پرخار ہوجائیں گی اور ہماری نظریاتی اساس بھی روز بروزکمزور ترہوتی چلی جائے گی۔تعلیمی اداروں میں مطالعہ پاکستان کا مضمون دراصل نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کی ترویج و اشاعت کاذریعہ ہے۔ہائیرایجوکیشن کمیشن کا مطالعہ پاکستان کو نصاب سے ختم کرنا نئی نسل کو نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان سے گمراہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے تعلیمی وفود کے ساتھ گفتگو میں کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہائر ایجو کیشن کمشن کو کیا سوجھی ہے کہ اس نظریہ پاکستان کو جڑ ہی سے کاٹنے پر تلا ہوا ہے۔ ہائر ایجو کیشن کمشنہ شاید اس امر سے آگاہ نہیں ہے کہ آئینِ پاکستان کا پہلا آرٹیکل ہی نظریہ پاکستان کا مکمل آ ئینہ دار ہے، جس میں پاکستان کا دستوری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ دستور کے دوسرے آرٹیکل میں یہ تحریر ہے کہ اسلام پاکستان کا ریاستی دین ہوگا۔ دستور کے اس آرٹیکل نے پاکستان کو سیکولر ریاست قرار دینے والوں کی جڑ ہی کاٹ دی ہے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 2-A میں قرار داد مقاصد کو آئین کا لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اب قرار داد مقاصد آئین کا دیباچہ نہیں بلکہ آئین کے دوسرے تمام آرٹیکلز کی طرح ایک لازمی جزو شمار ہوتاہے۔ قرارداد مقاصد میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ تمام کائنات کا اقتدار ِاعلی صرف اللہ رب العزت کے پاس ہے ا ور جو اِختیار و اقتدار مملکتِ پاکستان کی صورت میں ہمیں عطا ہوا ہے، یہ اختیار و اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے اللہ تعالی کی قائم کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کیا جائے گا۔  قرار داد مقاصد میں یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو قرآن و سنت میں متعین کیے ہوئے اسلامی اصولوں اور تقاضوں کے مطابق اِطلاق کے قابل بنایا جائے گا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان میں ہماری اجتماعی زندگی اور نظام حیات بھی قرآن و سنت کے تابع ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان اسلامی تصورات کی اساس پر قائم ایک جمہوری مملکت ہے۔ پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں ا ور سینٹ کے تمام ارکان، وزیراعظم، صدر مملکت، قومی اسمبلی کا سپیکر اور سینٹ کا چیئرمین سب ہی یہ حلف اٹھانے کے پابند ہیں کہ ہم اسلامی نظریے کے تحفظ کے لیے بھرپور کوشش کریں گے جو قیامِ پاکستان کی اساس ہے۔قومی  و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر بننے کیلیے آئین میں اہلیت کے لیے جو لازمی شرائط رکھی گئی ہیں، ان شرائط کے مطابق اگر کوئی شخص اچھے کردار کا مالک نہیں ہے، جس کی عمومی شہرت یہ ہے کہ وہ اسلامی احکامات کی پابندی نہیں کرتا، وہ اسلامی تعلیمات کا معقول علم نہیں رکھتا، فرائض اسلام ادا نہیں کرتا اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب نہیں کرتا تو وہ قومی  و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر بننے کا اہل نہیں ۔ ممبر قومی  و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ بننے کے لیے یہ بھی ضروری شرط ہے کہ وہ شخص بیدار مغز، ایماندار، متقی اور امین ہو اور وہ کسی اخلاقی پستی کا شکار نہ ہو اور کسی اخلاقی جرم یا جھوٹی گواہی دینے کے الزام میں سزا یافتہ نہ ہو۔ نظریہ پاکستان کی مخالفت کرنے والا شخص بھی ممبر پارلیمنٹ بننے کی اہلیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر پارلیمنٹ کا ممبر بننے کی ان شرائط اور پابندیوں کا صحیح طور پر خیال رکھا جائے اور آئین کی روح پر سختی سے عمل کیا جائے توکوئی وجہ نہیں کہ تحریک پاکستان کے مقاصد پورے نہ ہوں اور پاکستان اسلام کی عظمت ِرفتہ کا مرکز نہ بنے۔صدر اور وزیراعظم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط بھی آئینِ پاکستان کی وہ اسلامی دفعہ ہے جو پاکستان کے ایک اسلامی ریاست ہونے کی مضبوط شہادت  قرار پاتی ہے۔

پروفیسرمحمدابراہیم خان نے کہا کہ مطالعہ پاکستان کے مضمون کا پاکستانی جامعات کے نصاب سے اخراج در اصل نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلام کو پاکستانیوں کے قلوب و اذہان سے نکالنا ہے۔ہائرایجوکیشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف ملک کے طول وعرض میں نہایت تشویش اور غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ممتاز دانش وروں کے علاوہ  طلبہ و اساتذہ تنظیموں اور سول سوسائٹی نے اس فیصلے پرنہ صرف حیرت کا اظہار کیا ہے،بلکہ اسے وطن عزیز کے خلاف سنگین سازش بھی قرار دیا ہے۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ ہائریجوکیشن ایک قومی ادارہ ہے ،اس لیے وہ اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرے اور فی الفور اس فیصلے کو واپس لے اور مطالعہ پاکستان کی سابقہ لازمی حیثیت کو فورا بحال کرے،بصورت دیگر اس فیصلے کے خلاف ملک بھر کے طلبہ،اساتذہ،دانشور اور عوام بھرپور ردعمل دیں گے اور اس سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔