حفظ ماتقدم۔ جسے ہم سب بھول گئے۔۔۔تحریر محمود شام


میں بھی کانپ رہا ہوں۔ آپ کی طرح۔

ایک دوسرے کے لاڈلے کس طرح سانس کی ڈور الجھتے کٹتے دیکھ رہے ہوں گے۔ موت گود میں آرہی ہوگی۔ موت پہلو میں آرہی ہوگی۔ کہیں زندگی بھر کی رفاقت دم توڑ رہی ہوگی۔ کہیں کوئی غنچہ بن کھلے مرجھارہا ہوگا۔ کہیں گھر بھر کا سربراہ حالتِ نزع میں ہوگا۔ کوئی ایمبولینس نہیں آسکتی ہوگی۔ کوئی اسپتال نہیں جاسکتا ہوگا۔

ڈائمنڈ جوبلی سال نے بھی سانحے جننا شروع کردیے ہیں۔

جانے والو۔ ہمیں معاف کرنا۔ ہم بہت ہی خود غرض ہیں۔ ہمیں انسانی جان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ہمیں صرف پیسہ چاہئے۔ مجبوری میں گھرے ہم وطنوں سے بھی ہم معمولی چیزوں کے ہزاروں طلب کررہے تھے۔ ہم تو سوداگر ہیں۔ ہم تو قبضہ گیر ہیں۔ بصیرت۔ دانائی۔ دست گیری۔ درد مندی۔ غم خواری۔ خیر خواہی۔ حفظ ماتقدم ان سب بے مقصد عادتوں سے ہم جان چھڑا چکے ہیں ۔بے حسی۔ شقی القلبی۔ بے دردی۔ جبر اور دوسروں کی مجبوری پر نفع خوری ہم نے اپنے رہبروں سے حکمرانوں سے سیکھی ہے۔ یہ عظیم خصوصیات انہیں اقتدار کے ایوانوں تک لے جاتی ہیں۔ ہمیں ان صفات سے اپنی تجوریاں بھرنے کا موقع ملتا ہے۔ اسیں مری نے راجے آں۔ ہم مری کے راجے ہیں۔ ہم ملک کی اشرافیہ ہیں۔ ہم اس مملکت خداداد کے تاجر ہیں۔ ہم اس عظیم دیس کے صنعت کار ہیں۔ ہم اس جمہوریہ کے اسسٹنٹ کمشنر ہیں۔ ڈپٹی کمشنر ہیں۔ کمشنر ہیں۔ آئی جی ہیں۔ ڈی آئی جی۔ ایس ایس پی۔ ڈی ایس پی۔ ہم اس ریاست کے صدر ہیں۔ وزیر اعظم ہیں۔ وزیر داخلہ ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہیں۔ سب عیش و عشرت ہمارے لیے ہے۔ یہ بیس کروڑ جاہل بے خبر۔ جب محکمۂ موسمیات نے کہہ دیا تھا کہ برف پڑے گی تو یہ لاکھوں مری کیوں آئے۔ جب رعایا خودکشی پر آمادہ ہو تو ہم اپنی گرم عشرت گاہوں سے کیوں نکلیں؟

معاف کیجئے۔ یہ میں نہیں لکھ رہا۔ یہ میرا قلم حدیں پار کررہا ہے۔ وہاں میرے بیٹے بیٹیاں۔ مائیں بہنیں۔ بھائی بزرگ برف کے طوفان کے سامنے بے بس تھے۔ یہاں میں اپنے جذبات کے طوفان کے سامنے بے بس ہوں۔ میری سب معلومات۔ سارے مشاہدات۔ تجربات عجز کا شکار ہیں۔ اکیسویں صدی میں جب ٹیکنالوجی اپنے عروج پر ہے۔ جب انسان سیلابوں۔ طوفانوں۔ آفات ناگہانی سے محفوظ رہنے کی تدابیر وضع کرچکا ہے۔ مری میں اپنے پیاروں کو برف کی یلغار سے نہ بچاسکے۔

جب بھی ایسا سانحہ رُونما ہوتا ہے۔ میرے نواسے، پوتے مجھ سے سوال کرنے لگتے ہیں۔ دادو۔ نانو۔ ہم انہیں کیوں نہیں بچاسکے؟

میں یہی سوال صدر مملکت، وزیر اعظم ، وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ پنجاب سے کرسکتا ہوں۔ محکمۂ موسمیات کی وارننگ تو انہوں نے بھی سنی ہوگی۔ کیا انہیں اپنی رعایا کا خیال آیا تھا۔ انہوں نے متعلقہ افسروں سے پوچھنے کی زحمت کی تھی کہ اس موسم کی سختی سے ہمارے ووٹروں کو محفوظ رکھنے کے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ اب جو 22 گھرانے اجڑ گئے ہیں۔ کتنے بچے یتیم ہوگئے۔ کتنی سہاگنیں بیوہ۔ کتنے بوڑھے اکیلے رہ گئے۔ اب وزیر اعلیٰ ہیلی کاپٹر سے قتل گاہوں کا جائزہ لینے نکلے ہیں۔ وزیر اعظم بیان دے رہے ہیں۔ مگر ان کی آنکھ میں ایک بھی آنسو نہیں ہے۔ صدر مملکت صرف ایک اے ایس آئی کے اہل خانہ کو فون کرکے اظہار ہمدردی کررہے ہیں۔میرے ارد گرد سجی کتابیں مجھے جھنجھوڑ رہی ہیں۔ تحقیق۔ تخلیق۔ تصنیف سب بے اثر ہے۔ اگر وقت سے پہلے ان میں درج ہدایات پر عمل نہ کیا جائے۔ حکمرانوں سے بصیرت چھین لی گئی ہے۔ یا انہوں نے خود اس سے نجات حاصل کرلی ہے۔ حکمران۔ میڈیا۔ یونیورسٹیاں۔ تحقیقی ادارے۔ امیر ملکوں کے عطیات سے پلنے والی این جی اوز سب ناکام ہوگئیں۔

بعد از مرگ واویلا ہمارا شعار بن گیا ہے۔ ایک سانحہ ہمیں ایک دو روز تکلیف میں مبتلا رکھتا ہے۔ پھر وہی بے حسی۔ بے خبری۔ دوسرا سانحہ پھر ہماری بے باکی، جرأتمندی کو ہوا دے دیتا ہے۔ ہم داستانیں کشید کرتے ہیں۔ مثنویاں لکھتے ہیں۔ لیکن کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کرتے۔ زندہ قوموں نے پہلے سے حفاظتی تدابیر مرتب کی ہوتی ہیں۔ جو محکمۂ موسمیات کی خبرداری کے ساتھ ہی حرکت میں آجاتی ہیں۔ احتجاج روکنے کے لیے تو حکومتیں کنٹینروں کی رجمنٹیں کھڑی کردیتی ہیں۔ کیا مری میں جانے والی گاڑیوں کا راستہ نہیں روکا جاسکتا تھا۔مری کی حدود اُتنی ہی ہیں۔ سڑکیں بھی وہی۔ ملک میں گاڑیاں بڑھ چکی ہیں۔ آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کو فکر ہے نہ عوام کو۔ وسائل محدود ہورہے ہیں۔ بینکوں کو گاڑیاں قسطوں میں دینے میں فائدہ ہے اس لیے وہ اپنے ملک کی ضرورت کو سامنے نہیں رکھ رہے صرف نفع پیش نظر ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی فکر پلاننگ کمیشن کو ہے نہ کسی قومی سیاسی جماعت کو۔ آبادی قابو سے باہر ہورہی ہے۔

برف کا طوفان کوئی انہونی نہیں تھی۔ پہلے بھی یہ برف پڑتی رہی ہے۔ ہم مستقبل کے لیے کوئی تیاری نہیں کرتے ۔ آئندہ دس پندرہ سال کی منصوبہ بندی اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔یہ نکتہ اس وقت اگرچہ بے محل لگے گا۔ مگر یہ مسئلہ اب ہماری اولیں ترجیح ہونی چاہئے کہ ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات بہت سے سانحوں کو جنم دے رہی ہیں۔ وسائل کم پڑتے جارہے ہیں۔ مسائل پہاڑوں کی صورت اختیار کررہے ہیں۔ ہمیں بہت زیادہ منظّم ہونا پڑے گا۔ آفات اور سانحوں سے بچنا ہے تو زندگی کچھ ضابطوں کے مطابق گزارنا ہوگی۔ پاکستان میں رہنا ہے تو خود اپنی ذمہ داری پر انگریزی میں At Your Own Risk ۔

اپنی جان کی،اپنے مال کی حفاظت خود کیجئے۔ اپنے مستقبل کو روشن بنانے کے لیے خود کچھ سوچئے حکمرانوں میں یہ اہلیت ہے نہ بصیرت۔ مری کی سڑکوں پر منجمد گاڑیاں اور کاروں میں ہونے والی ہلاکتیں یہی سبق دے رہی ہیں۔ غافل حکمراں کو سزاملا کرتی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ