آج اتوار ہے۔ 2022کا دوسرا اتوار۔ آپ نے بتایا ہی نہیں کہ سال کے پہلے اتوار کو آپ کی اپنی اولادوں سے بات چیت کیسی رہی؟ ان کے 2021 کے بارے میں کیا سوالات تھے اور وہ 2022 سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟کیا آپ نے انہیں بتایا کہ یہ ہماری آزادی کا ڈائمنڈ جوبلی سال ہے۔سات دہائیوں سے کتنے چاند سر آسماں دیکھے۔ بہت آب و تاب۔ زمین پر بھی چھائے ہوئے۔ پھر تاریخ کے کچرے دانوں میں غائب ہوتے رہے۔
اخبار کے صفحوں پہ ہیں جو نام نمایاں
تاریخ کے معیار پہ اکثر نہیں اترے
ان دنوں بھی بہت سے ہیں جو اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ ان کے حاشیہ بردار انہیں ملک کے لیے آخری امید خیال کرتے ہیں۔ وہ تاریخ کے خوابوں میں نہیں جھانکتے کہ کتنے ناگزیر۔ کتنی آخری امیدیں وہاں بے نام و نشان پڑی ہیں۔ یہی وہ لوگ تھے جو اس عظیم مملکت کو ہنگاموں اور افراتفری کے سپرد کرکے چلے گئے۔ آج اس حسین سر زمین میں حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔ کوئی سسٹم نہیں ہے۔ معیشت زبوں حال ہے۔ زراعت سرنگوں ہے۔ معدنی وسائل پہاڑوں میں اسی طرح مقید ہیں۔ تو یہ ان ناگزیروں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہی ہے۔ ان میں خاکی بھی تھے نوری بھی۔ وہ بھی جو یہ کہہ کر آئے ’’میرے عزیز ہم وطنو۔‘‘ ان کی وردیاں بے شکن تھیں۔ تمغے اور ستارے انتہائی چمک دار۔ ان میں وہ بھی تھے جو کہتے تھے ’’ہم عوام کا مینڈیٹ لے کر آئے ہیں۔ ہمارے دل اور پاکستانیوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں‘‘۔
آج 22 کروڑ میں سے 20 کروڑ پاکستانیوں کے لیے زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ حال کی بد نصیبیوں نے انہیں ایسا الجھایا ہوا ہے کہ وہ نہ ماضی میں اپنی محرومیوں کے ذمہ داروں کو پہچان سکے اور نہ ہی مستقبل میں اپنے لیے روشنی کی کسی کرن کا تصوّر کرسکے۔میں نے اُمید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ میں تو تخریب میں بھی تعمیر کا پہلو دیکھتا ہوں۔ مجھے تو اب بھی پورا یقین ہے کہ پاکستان کا مستقبل محفوظ اور روشن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس خوبصورت مملکت کو جو اہم محل وقوع دیا ہے اور ہماری آبادی کا 60فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ میں تو ریکوڈک میں پاکستان کا خوشحال مستقبل دیکھ رہا ہوں۔ میں نے اپنی تازہ تصنیف ’’بلٹ ٹرین اور دوسرے خواب‘‘ میں اپنے وطنِ عزیز کے تابدار تصوّرات پیش کیے ہیں۔ جو ان شاء اللہ حقیقت بنیں گے۔
میں سالہا سال سے اس خلا کی نشاندہی کرتا آرہا ہوں جو سیاسی جماعتوں کی ملک گیر تنظیم نہ ہونے سے پیدا ہوتا رہا ہے اور اس خلا کو غیر سیاسی قوتیں پُر کرتی ہیں۔ خانۂ خالی رادیو می گیرد۔ خالی گھروں پر دیو قابض ہوجاتے ہیں۔ ہر ملک میں ایک فوج ضرور ہوتی ہے۔ اپنی نہیں تو کسی دوسرے ملک کی۔ میں تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجا لاتا ہوں کہ مجھے ایسے عظیم الشان ملک میں بسنے کی توفیق دی ہے۔ میں تو جب بھی اپنے وطن کی صورت ارضی پر نظر ڈالتا ہوں تو اتنی نعمتیں۔ اتنی عنایتیں دیکھتا ہوں کہ رشک سے میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
قومی سیاسی جماعتوں کے درد مند رہنمائوں اور کارکنوں سے میں ڈائمنڈ جوبلی سال کے آغاز پر دل کی گہرائیوں سے التجا کررہا ہوں کہ مایوس اور اداس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے پاس ثقافت، تہذیب اور تمدن سے مالا مال ماضی بھی ہے۔ چمکتا دمکتا حال بھی۔ اور ایک روشن مستقبل بھی۔ ہمارے پاس پنجاب، جنوبی پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان جیسی درخشاں وحدتیں ہیں جن کی اپنی صدیاں ہیں۔ اپنی داستانیں اپنے ورثے۔ قومی سیاسی جماعتیں ہی ان سب وحدتوں کی میراث کی امین ہیں۔ سیاسی جماعتیں قوم کا دماغ ہوتی ہیں۔ یکجہتی اور اتحاد کی موثر مشینری۔ سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور تنظیم اس طرح کی جاتی ہے کہ ان میں پالیسی ساز بھی ہوں۔ ماہرین معیشت بھی۔ اساتذہ بھی۔ ماہرین تعلیم بھی۔ انسانی وسائل کے تربیت کار بھی۔ ان کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ملک کا مجموعی جائزہ لیں۔ زمینی حقائق سامنے رکھیں۔ خاص طور پر ریکوڈک اور دوسرے قدرتی وسائل۔ ان کے تناظر میں آئندہ پندرہ بیس سال کا لائحہ عمل تیار کریں۔ ابھی یہ جماعتیں روز کے روز ٹوئٹروں۔ بیانوں کے جواب میں ردّعمل تک محدود ہیں۔ صرف ذاتی کمپنیاں بنی ہوئی ہیں۔ موروثی طریقے اختیار کرتی ہیں۔ پارٹیوں کے باقاعدہ سیکرٹریٹ ہیں مگر پارٹی سربراہ اپنے گھروں کو ہی ہیڈ کوارٹر بناتے ہیں۔ بلاول ہائوس۔ جاتی امرا۔ بنی گالا۔ زمان ٹائون میں ہی دربار سجتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اپنے اپنے سیکرٹریٹ میں سربراہ ہر روز بیٹھیں۔ کارکنوں سے ملیں۔ عہدیداروں کے دفاتر وہاں ہوں۔ محققین وہاں مختلف شعبوں پر تحقیق کریں۔ تمام وزارتوں کے محکموں کی متبادل کمیٹیاں ہوں جو ان شعبوں کی ترقی یا تنزّلی کی رفتار پر نظر رکھیں او ر روزانہ رپورٹ مرتب کرتی رہیں۔ تاکہ جب کبھی حکومت میں آئیں تو وہ ہر محکمہ سنبھالنے کے لیے تیار ہوں۔ بار بار مہلت نہ مانگیں۔
روز مرہ کی حکومتی پالیسیوں پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ متعلقہ ماہرین سے مشاورت کے بعد پالیسی بیان جاری کیے جائیں۔ ان کا ایک دائمی تاثر نقش ہوگا۔یہ جو اگلے سیکنڈ ہی ترجمان اپنی اپنی بولیاں بولنے لگ جاتے ہیں اس سے عوام ذہنی انتشار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اپوزیشن متبادل سرکار ہوتی ہے۔ اس لیے متبادل پالیسیاں بھی اسکی ذمہ داری ہیں۔ پارٹیوں کی موجودہ ہیئت کے باعث موجودہ عہدیدار مسائل کے حل کا سر چشمہ نہیں بن سکتے۔ہر سیاسی پارٹی اس ملک گیر تنظیم اور تشکیل کے بعد تعلیم، صحت، بلدیات، خارجہ، داخلہ، زراعت، قدرتی وسائل، ماحولیات اور سیکورٹی کی پالیسیاں وضع کریں۔ عوام کی رائے بھی شامل کریں۔ان کے عہدیدار کارکنوں اور عوام سے مسلسل رابطے میں رہیں۔اب تو پارٹی تنظیم جدید ترین ٹیکنالوجی کی بدولت اور آسان اور تیز رفتار ہوسکتی ہے۔ واٹس ایپ، ای میل، ویب سائٹ سے روزانہ اپنے کارکنوں کو اعتماد میں لیا جاسکتا ہے۔
میں آخر میں پھر یہی عرض کروں گا کہ خوشحالی۔ خود کفالت کی چابی حقیقی سیاسی جماعتوں کے پاس ہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ