قاضی حسین احمد ۔تحریک آزادی کشمیر شیخ عقیل الرحمن ایڈووکیٹ


قاضی حسین احمد ۔تحریک آزادی کشمیر
شیخ عقیل الرحمن ایڈووکیٹ
نگہہ بلند سخن دلنواز جاں پرُسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
اس شعر کے مطابق زندگی گزارکرقاضی حسین احمد مرحوم اس دارفانی سے داربقاء کی طرف چلے گئے۔عالم اسلام کے وہ قائد اورمیرے پیرومرشد جناب قاضی حسین احمد جو نہ صرف پاکستان کے عوام کے بلکہ عالم اسلام کے لوگوں کے قائداور اُن کے دلوں میں بسنے والے تھے ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جن کا دل عالم اسلام کیلئے دھڑکتاتھاوہ نہ صرف عالم اسلام کا دردرکھتے تھے بلکہ ایک عملی شخصیت تھے جب بھی ضرورت پڑتی یا کوئی آفت آتی توعالم اسلام میں یہ واحد شخصیت تھی جوآگے بڑھ کر عوامی سطح پر اپنی ذمہ داریوں کو پوراکرتی ، وہ افغانستان کا معاملہ ہو، عراق کامعاملہ یاپھر فلسطین کے مظلوم لوگوں کا معاملہ ہو ہرمعاملے میںپیش پیش عوامی سطح پرکوئی شخصیت ہوتی تو وہ قاضی حسین احمد تھے۔اس وقت میں اُن کا جوعالم اسلام میں مقام ومرتبہ تھا یا پھر عالم اسلام کیلئے جو اُن کی خدمات تھیں اُس پر نہیں لکھناچاہتا اُس کیلئے ایک پوری کتاب چاہیے شاید وہ بھی کم ہو ۔اس موقع پر قاضی حسین احمد صاحب کی تحریک آزادی کشمیر کیلئے جو جدوجہد اورقربانیاںتھیں اُسی پر بات کروں گا۔اب یہ پاکستان اور اہل کشمیرکیلئے ایک خوش بختی کی بات تھی کہ قاضی حسین احمد کی شخصیت اُن کے درمیان سے اُٹھی اوراُس نے پاکستان کی سطح پر پہلی بارمسئلہ کشمیرکواپنامسئلہ سمجھتے ہوئے اُس کی آزادی کیلئے بھرپور کرداراداکیا اور اپنی خداداد صلاحتیوں کو برؤے کار لاکرانہوں نے تحریک آزادی کی پشت پر پاکستانی عوام ، اداروں اور حکومت کو لاکھڑاکیااورحکومت کو مجبورکیا کہ وہ تحریک کے حوالے سے اپناکرداراداکرے۔ میں یہ بات بغیرکسی ہچکچاہٹ کے کہتاہوں کہ اگرپاکستان میں اقتدارقاضی حسین احمد کے پاس ہوتا اورپاکستانی قوم اُن کو اختیارات دیتی تو آج کشمیرآزادہوتا۔میرے نزدیک کشمیرکب کا آزادہوچکاہوتا اورانڈیا اپنی تمام افواج بھی (گو نصف فوج تو لے آیا ہے) لئے آتا توبھی وہ تحریک آزادی کشمیر کاراستہ نہیں روک سکتاتھا۔اہلیان کشمیرنے حالیہ تحریک میں بڑی قربانیاں پیش کی ہیں۔ جس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔لاکھوں افرادنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، عزتوں کی قربانی دی گئی اوراربوں روپے کی جائیدادیں نذرآتش کرائی گئیں۔ نوجوانوں نے اپنی آنکھیں آزادی کیلئے پیش کیں۔پوری کشمیری قوم نے وہ کچھ آزادی کیلئے کیا جس کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے۔ اس قدر قربانی کے بعد ہم اُس سے مزید کیاتقاضاکرسکتے ہیں ۔مزید کیاڈیمانڈ کرسکتے ہیں۔ یہ واضح اعلان ہے کہ اہل کشمیرنے اپنی ذمہ داری پوری کردی بلکہ اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر اپن ذمہ داری اداکی۔کشمیرکی ایک ایک ماں نے آزادی کیلئے اپنے تین تین ، چارچاربیٹے تک قربان کردئیے۔اہل کشمیرکہہ سکتے ہیں:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
آزادی کے حوالے سے جو کردارحکومت پاکستان ، افواج پاکستان اوربیس کیمپ کابنتاتھا وہ کردارادانہیںہوا۔ اگروہ کردار اداہوتاتو کب کا کشمیرآزادہوچکا ہوتا۔ یہاں کی قیادت سیاسی اور عسکری دونوں فرض منصبی ادانہیں کرسکے نہ ہی آزادکشمیر کی قیادت نے اس علاقہ کو حقیقی بیس کیمپ میں تبدیل اور نہ آزادی کیلئے کوئی کردار ادا کیااگرکوئی کوشش کی تو صرف اور صرف مظفرآبادکی کرسی کے حصول کیلئے کوشاں رہے۔بہرحال تحریک آزادی کشمیرمیںپاکستان سے جس شخصیت کا کرداررہا وہ قاضی حسین احمد تھے، اُن کی آواز بڑی تواناآوازآزادی کیلئے تھی جب بھی موقعہ آتا تو وہ مظلوم کشمیریوں کیلئے سینہ سپرہوجاتے۔ واجپائی صاحب، نوازشریف کے پہلے دورمیں آیاتو اُس ظالم کا راستہ روکنے کیلئے قاضی حسین احمد سینہ سپرہوئے اوراپنی جماعت کے ساتھ تاریخ کا بدترین تشددانہوں نے سینوں پر سہالیکن تحریک سے پیچھے نہ ہٹے، مجھے یادہے کہ تحریک کے ابتدائی دنوں میں جب کشمیری قافلے لٹے پٹے مظفرآبادمیں آئے تو اُس وقت تن تنہا پاکستان کی جس شخصیت نے اُن کا استقبال کیا اور ان دردمندلوگوں کے سروں پر چھت رکھی اوراُس کے کھانے پینے کا اہتمام کیا تووہ قاضی حسین احمدتھے اوراُن کی جماعت تھی۔اُسی بناء پر پوری قوم کو تحریک آزادی کی پشت پر لاکھڑاکرنے کیلئے 1990 ء میں یکجہتی کشمیرکی کال دی جسے بعد میں حکومت نے اوردیگر جماعتوں نے اون کیا اور اس طرح پوری پاکستانی قوم اور حکومت کو جہادکشمیر کی پشت پرلاکھڑاکیا۔جب بھی ضرورت پڑی تو تحریک کے حوالے قاضی حسین احمد پیش پیش ہوتے وہ مسئلہ کشمیرکواپنامسئلہ سمجھتے ، پاکستان کی حقیقی معنوں میں کشمیرکوشہ رگ سمجھتے اور اُس کی آزادی کیلئے کوشاں رہتے بلکہ بھرپور کردار اداکرتے، پاکستان میں اُن کو جو اثرورسوخ حاصل تھا اُس کو وہ خاطرمیںلاکر وہ تحریک آزادی کے حوالے سے ذمہ داریاں پوری کرتے۔دیگرجماعتوں کو متحرک کرنے، عوام کو موبلائزکرتے، حکمرانوںکومجبور کرتے کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔جب تک وہ جماعت کے امیررہے انہوں نے کوشش کی جماعت کو بھی کشمیرکے حوالے سے متحرک رکھیں اور انہوں نے رکھا بھی۔اُس دورمیں قاضی صاحب اورجماعت اسلامی کاپہلااور آخری ٹارگٹ کشمیرکی آزادی تھی۔اُن کے بعد یہ سلسلہ باقی نہ رہا۔گو کہ جماعت اسلامی اور اُس کا امیر مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑاہے اور اپنا کرداربھی اداکررہاہے لیکن قاضی صاحب والے دورکی بات اب باقی نہ رہی۔قاضی صاحب تحریک آزادی کشمیرکو اپنامسئلہ سمجھتے تھے اور اُس کیلئے اسی طرح دوڑدھوپ کرتے تھے۔ مجھے یادہے کہ 5 فروری کے موقعہ پر وہ مظفرآبادتشریف لائے ۔بارشوں کی بناء پر راستہ جگہ جگہ سے بندتھے اور سلائیڈنگ تھی۔کوہالہ سے وہ پیدل مظفرآبادکی طرف روانہ ہوئے اورجگہ جگہ سلائیڈزکو عبورکرتے ہوئے جب وہ مظفرآباد یکجہتی ریلی میںپہنچے تو اُن کے لباس پر کیچڑ لگاہواتھا لیکن قاضی حسین احمد نے سلائیڈنگ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پیدل سفرجاری رکھااور بلاآخر ریلی میںپہنچ گئے۔ پاکستان کی اورکون سی ایسی قیادت ہے جو تحریک آزادی کشمیرکے حوالے سے اس طرح کا کرداراداکرے۔پاکستان کی قیادت اگر موسم خراب ہو اورجہازنہ آسکتاہو یا آسمان پر بادل نمودارہوں تو وہ دورہ ہی کینسل کردیتے ہیں ۔اہل کشمیرکو یہ احساس دلانے کیلئے کہ اہل پاکستان آپ کے ساتھ ہیں وہ کشمیرکے چپے چپے پر گئے اور لوگوں کو یہ باورکرایا کہ اہلیان پاکستان آزادی کے اس جدوجہد میں آپ کے شانہ بشانہ ہیں۔نیلم ویلی سے لیکر چکوٹھی ، مظفرآبادسے پونچھ ،میرپور ، کوٹلی ہرجگہ وہ حاضرہوئے اورعوام کے درمیان اُن سے گھل مل گئے اورانہیںیہ احساس دلایاکہ پاکستان آپ کے ساتھ ہے۔ چکوٹھی پر جب فائرنگ ہورہی تھی تو وہ اپنے قافلہ سمیت چکوٹھی پہنچ گئے۔فوج نے انہیں درمیان پاکر خوشی کااظہارکیااور توپ کے کئی گولے دشمن پر داغے۔پھر جب فائرنگ کی بناء پر نیلم کے راستے بند تھے تو یہ قاضی حسین احمدہی تھے جنہوںنے مجلس عمل کی پارلیمانی ڈیلیگیشن جناب شبیراحمد ایم این اے کی قیادت میں نیلم ویلی بھیجا جنہوںنے نوسیری سے تاؤ بٹ تک کاسفر فائرنگ زون میں کیااور نیلم ویلی کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کی اور پھر واپسی پر پاکستان قومی اسمبلی میں نیلم ویلی کے لوگوں کے مسائل کو بھی بیان کیا اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں واحد قاضی صاحب کی شخیصت تھی جنکے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے تھے اُن کی وفات کے بعد اگر کشمیری اپنے آ پ کو تنہاسمجھتے ہیں تو تنہائی ویسے نہیں ہے اُن کا حقیقی اور صحیح معنوں میں پشتبان اس دُنیاسے چلاگیاہے۔یہی وجہ ہے کہ بابائے حریت سید علی شاہ گیلانی نے قاضی حسین احمد کی وفات پر اس خواہش کا اظہارکیاتھا کہ اگرمجھے انڈیا اجازت دے تو میں اپنے محسن قاضی حسین احمد کے جناز ے میںشرکت کرسکوں۔گوکہ انڈیانے اُن کو اجازت نہ دی لیکن قاضی صاحب کیلئے یہ بڑے اعزازکی بات تھی کہ سیدعلی شاہ گیلانی نے اُن کے جنازے میں شرکت کی خواہش کی۔اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ قاضی صاحب کو جنت نصیب کرے۔(آمین)