اسلام آباد (صباح نیوز) وزیردفاع خواجہ محمدآصف نے بڑی ٹیکس چوری کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکس کی مد میں پانچ سو ارب روپے چوری ہورہے ہیں، تمباکو انڈسٹری میں دو سو چالیس ارب کی ٹیکس چوری ہورہی ہے، ملک میں رئیل اسٹیٹ میں پانچ سو ارب روپے کا ٹیکس نہیں لیا جاتا،فارماسیوٹیکل میں پینسٹھ ارب روپے کی چوری ہے اسٹیل کے سیکٹر میں تیس ارب روپے کی چوری ہے، یونیورسٹی کے وائس چانسلر ارب پتی بن گئے ،اسحاق ڈار نے بجٹ میں ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کی ہے،بڑے بڑے شاپنگ سنٹر پر کوئی ٹیکس نہیں ہے جو ادارے نہیں چل سکتے ان کو بند کرکے تین سو ارب روپے بچا سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئیخواجہ محمدآصف نے کہا کہ بجٹ میں جو بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے جس کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔آج عام آدمی کی زندگی جتنی دشوار ہوگئی ہے تصور نہیں کرسکتے ، سالوں کی معاشی ابتری کا سلسلہ وہاں پہنچ گیا ہے کہ عام آدمی کا سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ساٹھ فیصد سے زائد بجٹ سود اور قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہورہاہے۔دو انسٹیٹیوٹ کا قرضہ ایک ہزار ارب سے زائد ہے۔ ان اداروں کی نجکاری جتنی جلدی کردی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ موجودہ حالات کے مطابق بجٹ پیش کرکے عوام کوریلیف دیا ہے ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے یہ صورتحال یہاں کیسے پہنچی ہمارے وسائل کا کیا حشر ہوا،آمدنی میں کمی آئی ہے ۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اسحاق ڈار نے بجٹ میں ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے کہا کہ غربت مکاؤ کیلئے جو آرگنائزیشنز ہیں انہوں نے غربت ختم نہیں کی ایک ایک بال قرضوں میں جکڑا ہوا لوٹ مار کا بازار گرم رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک میں رئیل اسٹیٹ میں پانچ سو ارب روپے کا ٹیکس نہیں لیا جاتا ٹیکس کی مد میں پانچ سو ارب روپے چوری ہورہے ہیں، تمباکو کی کمپنیاں غیر قانونی کاموں میں ملوث ہیں،تمباکو انڈسٹری میں دو سو چالیس ارب کی ٹیکس چوری ہورہی ہے،فارماسیوٹیکل میں پینسٹھ ارب روپے کی چوری ہے اسٹیل کے سیکٹر میں تیس ارب روپے کی چوری ہے،
یونیورسٹی کے وائس چانسلر ارب پتی بن گئے، آٹو موبائل میں پچاس ارب روپے کی چوری ہورہی ہے، تعلیمی اداروں میں اس وقت مافیا بیٹھے ہوئے ہیںگزشتہ چار سال میں مافیاز کو تحفظ دیا گیا ۔خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت عدلیہ میں ٹیکس کے کیسز چل رہے ہیںمیں نہیں کہتا کہ سب کہتے ہیں کہ یہ ادارہ قابل رشک تھا مگر جس دن قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس پیش ہوا اس دن دراڑ پڑ گئی، ہم پر تنقید ہوتی ہے تو برداشت کرتے ہیں یہاں ایسے ایسے نازک مزاج ہیں کہ دو دو تین وزیر اعظم ڈکار کرکے کھا گئے ۔انھوں نے کہا کہ ہمارا علاج آئی ایم ایف کے پاس نہیں ہمارے اپنے پاس ہے جب تک کڑوی گولی کھا کے علاج نہیں کرینگے معاملات ٹھیک نہیں ہونگے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ریونیو میں بہت بڑی لیکج ہے مزید کوئی لفظ استعمال نہیں کرتابڑے بڑے شاپنگ سنٹر پر کوئی ٹیکس نہیں ہے جو ادارے نہیں چل سکتے ان کو بند کرکے تین سو ارب روپے بچا سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہاں لوگ چلا رہے ہیں ہمارے پنشن کم بڑھائی گئی ، ایف بی آر کے ملازمین کہتے ہماری تنخواہ کم ہے ، انھوں نے کہا کہ عدلیہ کا بھی کام ہے کہ ٹیکس کیسز میں سٹے آرڈرز نہ دیں، ایف بی آر کے ہزاروں ارب روپے کے کیسز عدالتوں میں پڑے ہیں فیصلے نہیں ہورہے چار پانچ ہزار ارب کا ڈاکہ پڑ رہا ہے لوگ ٹیکس نہیں دیتے نقصان کرنے والے ادارے ملکی معیشت پر بوجھ ہیں جو بھی اٹھتا ہے ہم پر تنقید شروع کردیتا ہے ،
معلوم نہیںآئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوگا یا نہیں ہمیں بیرونی خطرہ نہیں ہے لیکن اندرونی معاشی حالات سب سے بڑا خطرہ ہے ان حالات میں ڈار صاحب نے بجٹ کو ترتیب دیا ہے، پاکستان کی اکانومی کو اندورنی حالات سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ وزیردفاع نے کہا کہ سیاست میںکوئی چھوٹا موٹا ہاتھ مار لے تو اشتہار لگ جاتے ہیں یہاں تو ریٹائرمنٹ کے بعد نوے فیصد پینشن ملتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تخفیف غربت کے چیئرمین کی تنخواہ 27 لاکھ ہے ،وائس چانسلرز کے اربوں کے بجٹ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکو قوم کو تعلیم دے رہے ہیں وہ ڈاکے ہی سکھائیں گے وہ لوگ اپنی مدت ملازمت بڑھا دیتے ہیں یہ ہماری عدلیہ کیا کررہی ہے کیا یہاں پھر وہ ہوگا جو 2018 میں ہوا اور پھر وہ ہوگا جو چا رسال میں ہوا،یہاں ایک شخص کا اقتدار گیا تو ریاست یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی ۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ایک شخص چند لوگوں کے ساتھ ریاست کو چیلینج کرتا ہے، وہ کوئی سیاسی لڑائی نہیں لڑ رہا کیا ہماری پچھتر سالہ تاریخ میں کسی نے ریاست کو چیلینج کیا ایک شخص کہہ رہا ہے کہ پری پلان سازش ہوئی ہے،آپ کی دو ہمشیرہ وہاں کھڑی تھیں کیا وہ بھی اس کا حصہ تھیں۔وزیردفاع نے کہا کہ اس وقت بتیس سو شرپسندوں کی شناخت ہوچکی ہے فراموش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ شہدا کی یادگاروں کو مسمار کرکے شدید نفرت کا اظہار کیا گیا، جی ایچ کیو پرپیٹرول بم پھینکے گئے دفاعی اثاثوں پر حملے کئیے گئے پچھتر سال میں ہمارا ازلی دشمن نہیں کرسکا جو اندورنی دشمن نے کردیا اس سانپ کو دودھ پلاکر پالا گیا اب کہتا ہے میرے خلاف سازش ہوئی، اس سانپ کو دودھ پلا کے بڑھایا گیا اور اس نے نو مئی کو ڈسا اگر وہ استعفے نہ دیتے تو آج یہاں پر بیٹھے ہوتے دو حکومتیں خود ہمارے حوالے کردیں پھر استعفوں کی واپسی کیلئے عدالتوں میں چلا گیا یہاں پر میں نے کہا تھا کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر کچھ معاملات کو درست نہ کیا تو معاشی حالات درست نہیں ہوسکتے ہمارے پاس قومی دولت بڑھانے کے وسائل موجود ہیں قومی دولت بڑھانے کیلئے ہمارے پاس عزم نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ پرائیویٹائزیشن کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں کہ نیب نہ بلا لے ۔ہمارے یہاں لوٹ مار کا یہ حال ہے کہ غربت ختم کرنے کے اداروں غربت ختم نہیں کرسکے جب کہ غربت مکا ؤاداروں کے چیف آپریٹنگ آفیسر اور چیف ایگزیکٹو آفیسرز کی تیس سے پینتیس لاکھ روپے تنخواہ ہے،اپنی پوزیشنوں کو پروٹیکٹ کرنے کے لیے انہوں نے عدالتوں سے اسٹے آرڈر لے رکھے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک کا ایک ایک بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔
ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں،ایک اسٹڈی کے مطابق مختلف سیکٹرز میں ہزاروں ارب روپے کی ٹیکس چوری ہو رہی ہے، یہاں تھانوں میں بجلی چوری ہوتی ہے چار ہزار ارب کا گردشی قرضہ ہوچکا ہے ،کسی ویرانے میں نہیں بلکہ شہروں بھی بجلی چوری ہورہی ہے لوگ بل ادا نہیں کرسکتے علاج نہیں کرسکتے مرنے کا انتظار کرتے ہیںانھوں نے کہا کہ تمباکو کے ٹیکس چور اسمبلیوں اور سینیٹ میں بیٹھے ہیں ایک روپے کا بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے آپ ان کو کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کچھ کہیں گے تو چاروں طرف یلغار ہوگی اگر کچھ کہیں گے عدلیہ ان کو بچانے آجاتی ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ جو باہر بیٹھے ہیں انگریزی بولنے والے وہ کہتے ہیں ترسیلات نہیں بھیجیں گے کتنے بے شرم لوگ ہیں ملک کے خلاف کام کرتے ہیں جب کہ دبئی،جدہ،ریاض میں کام کرنے والے ترسیلات زر بھیجتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ لوگوں کے بچوں کو آگے لگایا اپنے بچے لندن میں بیٹھے ہیں اپنے بچوں کو بلا ؤنا کہ یہاں پر سیاست کریں۔انھوں نے مسلسل اس بات پر زرو دیا کہ اگر مستقل حل چاہتے ہیں تو نقصان میں جانے والے اداروں کو بند کرنا ہوگا یا نجکاری کرنی ہوگی بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے اس طرح حالات نہیں بدلیں گے اسحاق ڈار نے لوگوں کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے لیکن وہ ریلیف کم ہے ۔