شخصی جماعتیں شخصیت کے ساتھ ہی مرجاتی ہیں، نظریاتی جماعتوں کو دوام ملتا ہے، راشد نسیم


حیدرآباد (صباح نیوز)جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سابق ناظم اعلیٰ راشد نسیم نے کہا ہے کہ شخصی جماعتیں شخصیت کے ساتھ ہی مرجاتی ہیں، لیکن نظریاتی جماعتوں کو دوام ملتا ہے۔ جماعت اسلامی، اخوان المسلمون اور اس کی برادر تنظیمیں اس کا ثبوت ہیں، جبکہ تازہ مثال طالبان کی ہے۔ جمعیت نے قرآن وسنہ کا جو نصب العین دیا وہ محض دور طالب علمی کا نہیں پوری زندگی کا ہے۔ اقامت دین کا یہی نصب العین جماعت اسلامی کا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے لطیف آباد حیدرآباد کے مقامی شادی لان میں جمعیت کے 75 ویں یوم تاسیس کے موقع پر، ایک شام جمعیت کے نام،کے عنوان سے منعقدہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جمعیت کے ناظم سندھ فیضان بھٹی، جماعت اسلامی حیدرآباد کے ضلعی امیر عقیل احمد خان نے بھی خطاب کیا جبکہ اسٹیج پر ناظم جمعیت حیدرآباد معاذ عارف قریشی اور ناظم حلقہ احباب حیدرآباد فرقان حفیظ بھی موجود تھے۔

راشد نسیم نے کہا کہ جمعیت نے نوجوانوں میں اسلام کا شعور اور محبت رسول ۖ پیدا کی ہے۔ جمعیت کا سابق جہاں بھی ہوگا وہ اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرے گا۔ گذشتہ دنوں ہم نے مختلف اداروں میں ملازمت کرنے والے سابقین جمعیت سے ملاقات کی، تو وہ جمعیت کے خوبصورت ماحول اور جدوجہد کی یادوں کو تازہ کرتے ہو ئے اشک بار ہوگئے۔ جمعیت نے ہمیں جو کچھ نظریاتی و تربیتی ماحول دیا وہ سرمایہ حیات ہے۔ اس کا پیغام جہد مسلسل اور اسلام کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ اسلام کو یقینا عروج پھر ملنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں آج بے چینی و ا ضطراب،بدامنی اور اداروں میں کرپشن ہے اور دنیا کا مالیاتی نظام تباہ ہورہا ہے، تو وہ داڑھی و پگڑی والوں کی وجہ سے نہیں مغرب زدہ نامور تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ لوگوں کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ سید مودودی نے سوویت یونین کے ٹوٹنے سے متعلق جو پیشین گوئی کی وہ پوری ہوئی وہ اسلام پسندوں کے ہاتھوں ذلیل ورسوا ہوا، اب سرمایہ داری کو واشنگٹن میں بھی جگہ نہیں ملے گی۔ سید مودودی کی یہ پیشین گوئی بھی جلد پوری ہوگی اور سرمایہ دارانہ سودی نظام لرزہ براندام ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نظریاتی تحریکیں زندہ رہتی ہیں، لیکن نظریہ بھی اسلام جیسا ہو جس کو دنیا میں ایک بار پھر عروج ہونا ہے۔ بعض مسلم ممالک اگر اپنے نظریات کے برعکس تہذیبوں اور ثقافت کو مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو وہ اپنی تباہی کا سامان خود کررہے ہیں۔