اسلام آباد(عابدعلی آرائیں)اسلام آباد ہائیکورٹ نے جنگ ، جیوگروپ کے مالک میر شکیل الرحمن، ایڈیٹر عامر غوری ،سینئر صحافی انصارعباسی اور گلگت بلتستان کی عدالت کے سابق چیف جج رانامحمدشمیم کے خلاف جاری توہین عدالت کی کارروائی میں فریق بننے اور سابق جج راناشمیم کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی دو درخواستیں مسترد کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے ۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے تین صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے ۔
گلگت بلتستان کی سب سے بڑی عدالت کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور توہین عدالت کیس میں فریق بننے کی درخواستوں پر سماعت آج 26 دسمبر 2021 کو کی گئی تھی جس میں درخواست گزار کے دلائل سن کر فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جو جاری کیا گیا ہے۔
یہ درخواستیں رائے محمد نواز کھرل ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں جن میں جنگ ، جیوگروپ کے مالک میر شکیل الرحمن، ایڈیٹر عامر غوری ،سینئر صحافی انصارعباسی اور گلگت بلتستان کی عدالت کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کو فریق بنایاگیا تھا ۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے فیصلے کے پہلے پیرگراف میں لکھا ہے کہ درخواست گزار رائے محمد نواز کھرل سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل ہیں انہوں نے دو الگ درخواستیں دائر کی ہیں جن میں انہوں نے استدعا کی کہ انہیں مقدمہ نمبر309/2021ریاست بنام انصار عباسی کیس میں فریق بنایا جائے یہ وہ کیس ہے جس میںانگریزی اخبار دی نیوز میں
اخبار خبر شائع ہوئی تھی جس کا ٹائٹل یہ تھا کہ” سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہدایت کی تھی کہ نواز شریف اور مریم نواز کو 2018 کے انتخابات سے قبل رہا نہیں ہونا چاہیئے”’
اس کیس میں اخبار کے مالک میر شکیل الرحمن،ایڈیٹر عامر غوری اور سینئر صحافی انصار عباسی اور سابق جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کو توہین عدالت میں شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں
اس میں فریق بننے کے لئے درخواست دائر کرتے ہوئے رائے محمد نواز کھرل نے دوسری درخواست میں استدعا کی تھی کہ وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ وہ سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ یعنی ای سی ایل میں شامل کرے۔ عدالت نے لکھا ہے کہ درخواست گزارمحمد نواز کھرل ذاتی حیثیت میں عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور دلائل دیئے جن کو سنا گیا
عدالت نے فیصلے کے پیراگراف نمبر دو میں لکھا ہے کہ توہین عدالت کی کاروائی عدالت اور مرتکب توہین کے درمیان ہوتی ہے
عدالت نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا کسی عمل یا اشاعت سے عدالت یا جج کی اتھارٹی کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا عدالت کے قانونی عمل اور انصاف کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی گئی ہے؟
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ توہین عدالت کی کاروائی کا مطلب کسی ایک جج کا تحفظ نہیں ہے یہ ایکسرسائز اس وقت جسٹیفائیڈ ہو سکتی ہے جب عوامی مفادمتاثر ہورہا ہو۔
اپنے فیصلے کے پیراگراف 3 میں عدالت نے لکھا ہے کہ توہین عدالت کا معاملہ مرتکب توہین اور عدالت کے درمیان ہوتا ہے
مرتکب توہین کے علاوہ کوئی دوسرا شخص یہ کلیم نہیں کر سکتا کہ وہ اس میں فریق بننا چاہتا ہے ۔عدالت نے لکھا ہے کہ مجموعہ ضابطہ فوجداری 1998 کی کوئی شق اور نہ ہی مجموعہ دیوانی 1908اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایسے معاملات میں کسی کو فریق بننے کی اجازت دی جائے ۔عدالت نے لکھا ہے کہ درخواست گزار رائے نواز کھرل نے مجموعہ ضابطہ فوجداری کی شق 561 اے کے تحت فریق بننے کی درخواست دی ہے
لیکن یہ شق بالکل واضح ہے جو ہائی کورٹ کے اختیارات کو عیاں کرتی ہے ، کہ توہین عدالت کی کارروائی تین بنیادوں پر کی جا سکتی ہے
نمبر ایک
جب کسی حکم پر عملدرآمد کرانا ضروری ہو
نمبر دو
کسی بھی عدالت کے قانونی عمل کو روکنے کی کوشش پر یا
نمبر تین
انصاف کو یقینی بنانے کے لئے
عدالت نے فیصلہ کہ نمبر4 میں لکھا ہے کہ توہین عدالت کے مقدمے میں فریق بننے کے لیے دائر کی گئی درخواست
سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے میں مندرجہ بالا تینوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت حال موجود نہیں ہے اس لئے ان وجوہات کی بنیاد پر مقدمے میں فریق بننے کی درخواست ناقابل سماعت ہے ۔ اسی طرح رانا شمیم کی بیرون ملک رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق جو درخواست دی گئی ہے وہ بھی غیر موثر ہے اس بنیاد پر وہ درخواست بھی خارج کی جاتی ہے ۔