سیالکوٹ سانحے میں قتل ہونے والے سری لنکن شہری کی اہلیہ کا وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ


کولمبو،لاہور(صباح نیوز)پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کی جانب سے تشدد کے بعد قتل کیے جانے والے سری لنکن شہری پریا نتھا دیاودھنہ کی اہلیہ نے پاکستان کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان سے منصفانہ تحقیقات اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے،برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پریا نتھا دیاودھنہ کی اہلیہ نیروشی دسانیاکے کا کہنا ہے کہ ‘میرے شوہر ایک معصوم انسان تھے۔ میں نے خبروں میں دیکھا کہ انھیں بیرون ملک اتنا کام کرنے کے بعد اب بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے۔

میں نے انٹرنیٹ پر دیکھا کہ یہ قتل اتنا غیر انسانی عمل تھا۔ میں سری لنکا کے صدر اور پاکستان کے صدر و وزیر اعظم سے منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہوں تاکہ میرے شوہر اور ہمارے دو بچوں کو انصاف مل سکے،’ان کے بھائی کمالا سری شانتا کمارا نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ پریا نتھا دیاودھنہ 2012 سے سیالکوٹ کی اس فیکٹری میں ملازمت کر رہے تھے۔’

اس فیکٹری کے مالک کے بعد انھوں نے ہی اس کا تمام انتظام سنبھالا ہوا تھا۔ جہاں تک مجھے علم ہے ایک انتہا پسند تنظیم کا پوسٹر اندر لگایا گیا تھا اور اس حادثے کی وجہ تلاش کرنے کے لیے ایک ہڑتال دی گئی تھی۔’تعلیم کے اعتبار سے پریا نتھا دیاودھنہ ایک انجینیئر تھے۔

ان کے بیٹوں کی عمریں 14 اور نو سال ہیں۔دوسری جانب صوبہ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کو پیش کر دی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعہ کی تحقیقات کے لیے فوج کے خفیہ اداروں کے اہلکار پہلے ہی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کر رہے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے  سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے علاوہ ملٹری انٹیلیجنس اور سویلین خفیہ ادارے انٹیلیجنس بیورو کے اہلکار بھی تفتیشی ٹیم کا حصہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس واقعے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اب تک ایک سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو احتجاج میں شامل تھے جبکہ کچھ ایسے افراد بھی حراست میں لیے گیے ہیں جو کہ موقع پر موجود تھے۔

صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ زیر حراست افراد کے ابتدائی بیانات کی روشنی میں ان افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں جنہوں نے ہجوم کو سری لنکا کے شہری کو تشدد کرنے پر آمادہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ حراست میں لیے جانے والے افراد کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے بیانات کی روشنی میں ان سے پوچھ گچھ بھی کی جا رہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں مقامی پولیس کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی اور اطلاع ملنے کے 20 منٹ کے بعد پولیس حکام جائے حادثہ پر پہنچ گئے تھے۔

ایک سوال کے جواب میں راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ تشدد سے ہلاک ہونے والے سری لنکا کے شہری کی لاش ان کے وطن بھجوانے کے لیے وفاقی وزارت داخلہ سے رابطہ کیا گیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق وزارت داخلہ کے حکام نے وزارت خارجہ سے رابطہ کیا ہے اور انھیں اس ضمن میں سری لنکا کے ہائی کمیشن سے رابطہ رکھنے اور ان سے مقتول کی لاش کو سری لنکا بھیجنے کے بارے میں بات چیت کرنے کے بارے میں کہا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعہ کے محرکات میں توہین مذہب کے ساتھ انتظامی پہلوں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔صوبائی وزیر قانون کے مطابق سیالکوٹ اور گردونواح میں گرجا گھروں اور غیر ملکی فیکٹری ورکرز کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔