اسلام آباد(صباح نیوز) صدر مملکت عارف علوی نے پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ2021 پر دستخط کردیئے، اس قانون سے ورکنگ جرنلسٹ کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈمیڈیا پروفیشنل ایکٹ2021پردستخط کی تقریب ہوئی ، صدرمملکت عارف علوی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری تقریب میں شریک ہوئے۔تقریب میں صدر مملکت عارف علوی نے پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ2021 پر دستخط کئے ،
اس موقع پر خطاب میں عارف علوی نے کہا آج تاریخی قانون پر دستخط کئے گئے ہیں ، صحافی ہمیشہ دبا ومیں کام کرتے رہے ہیں۔صدر کا کہنا تھا کہ جعلی خبروں کی ذریعے معاشرے میں افراتفری پھیلائی جاتی ہے ، افغانستان کوجھوٹی خبروں نے برباد کردیا، پاکستان میں فیک نیوزکی یلغار ہے۔
اس سے قبل وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ صحافیوں کی ملازمت کا تحفظ یقینی بنارہے ہیں، ورکنگ جرنلسٹ کے حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈمیڈیا پروفیشنل ایکٹ کا فائدہ مستحق لوگوں کو ہوگا، میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی پر بھی نمائندہ تنظیموں سے مفید گفتگوجاری ہے، اس قانون سے ورکنگ جرنلسٹ کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 کے تحت پہلی مرتبہ پاکستان میں ورکنگ جرنلسٹس کو وہ حقوق فراہم کئے ہیں جو فرسٹ ورلڈ کے صحافیوں کو دستیاب ہیں۔ میڈیا پروفیشنل ایکٹ 2021 کا کریڈٹ وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو جاتا ہے۔ ایکٹ کی تیاری میں صحافی تنظیموں سمیت تمام صحافتی گروپوں کے ساتھ مشاورت کی گئی۔ حکومت اور وزارت اطلاعات کا فرض ہے کہ وہ ورکنگ جرنلسٹس کے پیچھے کھڑی ہوں۔
چوہدری فواد حسین نے کہاکہ میڈیا پروفیشنل ایکٹ میں ورکنگ جرنلسٹس کی ملازمت کو بھی تحفظ دیا گیا ہے۔ ہم پہلی مرتبہ صحافیوں کے لئے ایک آزاد کمیشن لائے ہیں جو شکایات کا 14 دن کے اندر فیصلہ کرے گا۔ اس ایکٹ میں ورکنگ جرنلسٹس کو مالکان اور حکومتی افسران سے بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس قانون کے ذریعے ہم نے ایک ایسا ماحول تشکیل دینے کی کوشش کی ہے کہ صحافیوں کو فرسٹ ورلڈ کے صحافیوں کی طرز پر تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ اس ایکٹ کے تحت صحافی کی ایک جامع تعریف کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کا فائدہ ان ورکنگ جرنلسٹس کو ہو گا، جو واقعی کام کر رہے ہیں۔
وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری نے کہاکہ بل بنانے میں صحافتی تنظیموں نے تعاون کیا۔ پہلی بار صحافیوں کے لیے آزادانہ کمیشن بنے گا۔ بل میں تمام میڈیا ورکرز کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے ۔ جرنلسٹ کی ویلفئر بھی موجودہ بل میں شامل ہے۔ میڈیا ورکرز کو فیلڈ میں بھیجنے سے قبل تحفظ یقینی بنانا ہو گی ۔ میڈیا ہاوسز ورکرز کو ٹریننگ دینے کے پابند ہونگے۔ کمیشن آزاد ہو گا۔ صحافی بھی شامل ہونگے ۔ وزارت اطلاعات بھی کمیشن میں شامل ہو گی۔ سارے بل میں کوئی ایسی شق نہیں جس پر بحث ہو سکے ۔ پروٹیکشن اور سورس کو بھی تحفظ دیا گیا ہے،
دوسری جانب سینیٹر فیصل جاوید نے پروٹیکشن آف جرنلسٹس بل 2021 منظورہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا آج کا دن پاکستان میں میڈیا آزادی کیلیے بڑی کامیابی ہے، وزیراعظم نے ثابت کیاوہ آزادی اظہار، آزادی صحافت پریقین رکھتے ہیں، انھوں نے آزادی اظہارپریقین کوعملی شکل دی
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021پر دستخط کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اس ایکٹ کو صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کیلئے ایک اچھے جذبے کے تحت صحافیوں کی مشاورت سے تیار کرکے پارلیمنٹ سے منظور کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان صدر میں پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ پر دستخطوں کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین، وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب، وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ ڈاکٹر شہباز گل، پی ایف یو جے سمیت صحافتی تنظیمیوں کے رہنماں، ملک بھر کے مختلف پریس کلبز کے عہدیداران اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ صدر مملکت نے پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ2021پر دستخط کو ایک تاریخی دن قرار دیا اور کہا کہ صحافی ہمیشہ دبا کا شکار رہے ہیں اور اب اتفاق رائے سے پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ منظور کرکے اس پر دستخط کئے گئے ہیں۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ صحافی غیر جانبدار ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت خطرہ میں رہتے ہیں، صحافی طویل عرصہ سے اپنے تحفظ اور حقوق کیلئے آواز بلند کرتے رہے ہیں، صحافیوں کو ماضی میں مافیاز کے ہاتھوں قتل اور زخمی ہونے کے واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور انہیں ہراساں بھی کیا جاتا رہا ہے، اس ایکٹ کے ذریعہ صحافیوں کو اس بات کا تحفظ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ذرائع کو ڈسکلوز نہیں کرسکتے۔ صدر نے امید ظاہر کی کہ صحافی بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے، اس ایکٹ کے ذریعہ صحافیوں کیلئے ویلفیئر سکیم کا اجرابھی کیا گیا ہے ۔
صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا کو فیک نیوز کا سامنا ہے، قرآن پاک میں حکم ہے کہ کوئی فاسق اگر چھوٹی خبر لائے تو اس کی تصدیق کرو۔ انہوں نے کہا کہ ایکٹ کے تحت میڈیا کمیشن بھی قائم کیا جائے گا۔ صدر نے ذمہ دارانہ صحافت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کوئی بھی خبر حقیقی تناظر میں دی جائے۔
صدر مملکت نے ایکٹ پر دستخط کو ملک اور صحافیوں کیلئے بڑا دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ایک اچھے جذبہ کے تحت ایکٹ کو منظور کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صحافی بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور معاشرے کے حقوق کو مدنظر رکھیں، ایکٹ کی منظوری کے بعد حکومت اور صحافتی اداروں کے مالکان کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے تقریب میں شرکت پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین،
وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری اور دیگر شرکاکا شکریہ ادا کیا۔ اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 کے تحت پہلی مرتبہ پاکستان میں ورکنگ جرنلسٹس کو وہ حقوق فراہم کئے گئے ہیں جو فرسٹ ورلڈ کے صحافیوں کو دستیاب ہیں، حکومت اور وزارت اطلاعات کا فرض ہے کہ وہ ورکنگ جرنلسٹس کے پیچھے کھڑی ہوں، ہم اپنے میڈیا کی آزادی کا موازنہ تھرڈ ورلڈ اور مسلم ورلڈ سے نہیں بلکہ فرسٹ ورلڈ سے کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 کا کریڈٹ وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ 2018میں وزیر اطلاعات بنے تو اس کا آئیڈیا ان کے ذہن میں آیا، انہوں نے یہ کام وفاقی وزیر انسانی حقوق کے سپرد کیا جنہوں نے اس ایکٹ کی تیاری میں انتھک کوشش کی جس پر ان کے مشکور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور وزارت اطلاعات کا فرض ہے کہ وہ ورکنگ جرنلسٹس کے پیچھے کھڑی ہوں۔ اس ایکٹ کی تیاری میں صحافی تنظیموں سمیت صحافیوں کے تمام گروپوں کے ساتھ مشاورت کی گئی۔
چوہدری فواد حسین نے کہا کہ پاکستان میں ایک طبقہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ یہاں پریس کو آزادی حاصل نہیں، اگر پاکستان میں پریس فری نہیں تو دنیا میں کہیں بھی پریس فری نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جب پریس کی آزادی کی بات آتی ہے تو ہم اپنا موازنہ تھرڈ ورلڈ اور مسلم ورلڈ سے نہیں بلکہ فرسٹ ورلڈ سے کرتے ہیں۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ وزیراعظم نے جہاں بھی ذمہ داری لگائی، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس حوالے سے کوئی نمایاں تبدیلی لے کر آئیں۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے 2018میں برسراقتدار آنے کے بعد پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز بل پر سینئر صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کے ساتھ مشاورت شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین، وفاقی وزیر سینیٹرشبلی فراز اور دیگر حکومتی عہدیداروں نے ایکٹ کی تیاری میں بھرپور طریقہ سے اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایکٹ کی منظوری کے بعد میڈیا مالکان اب صحافیوں کی انشورنس اور فلاح و بہبود کے دیگر اقدامات کرنے کے پابند ہوں گے۔
قبل ازیں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی صحافیوں کے تحفظ اور آزادانہ صحافت کے فروغ کے حامل جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز پروٹیکشن ایکٹ 2021 پر دستخط کردیئے۔ تقریب میں وزارت اطلاعات ونشریات اور اس کے ذیلی اداروں کے افسران و ملازمین، صحافتی تنظیموں کے عہدیداران اور صحافیوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ قومی اسمبلی نے 8 نومبر 2021 اورسینیٹ نے 19 نومبر 2021کو صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ (ایکٹ ) بل 2021 کی منظوری دی تھی۔ اس ایکٹ کے تحت صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو حق رازداری حاصل ہو گیا ہے ،انہیں پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انجام دہی اور آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہوا ہے ، انہیں نجی زندگی ، گھر اورذاتی خط و کتابت ( بشمول الیکٹرانک گفت و شنید)کی پرائیویسی، اپنی خبر کے ذرائع کو مخفی رکھنے کا حق،اورکسی بھی فرد یا ادارے کی جانب سے جبر، تشدد، خوف و ہراس، دھونس، دھمکی اور جبری گمشدگی کے خلاف تحفظ حاصل ہو گیا ہے ، انہیں خبر کا ذریعہ بتانے کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکے گا، بل کے تحت انسداد دہشت گردی اور قومی سلامتی کے قوانین کی میڈیا پروفیشنلز کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کو روکنے کے خلاف ناحق استعمال کی روک تھام کی جائے گی۔
میڈیا مالکان صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو مقرر کردہ میعارات کے تحت لائف اینڈ ہیلتھ انشورنس فراہم کریں گے، میڈیا مالکان صحافیوں کو وقت پر تنخواہ دینے کے بھی پابند ہوں گے۔ بل کے مطابق صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ، شکایات کی آزادانہ تفتیش اور فوری ازالہ کیلئے آزاد کمیشن قائم کیا جائے گا، کمیشن میں پاکستان بار کونسل، پی ایف یو جے، نیشنل پریس کلب، پی آر اے، وزرات انسانی حقوق ، وزارت اطلاعات و نشریات کے نمائندے شامل ہوں گے۔ وفاقی حکومت کمیشن کے چیئرپرسن کا دو سال کے لئے تقرر کرے گی، کمیشن میں کم از کم تین خواتین ارکان شامل ہوں گی۔ بل کے تحت آئین کے آرٹیکل 9 کے مطابق صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کی زندگی اور سکیورٹی کے حق کو یقینی بنا یا جائے گا ، کوئی شخص، ادارہ ایسا اقدام نہیں کر سکے گا جس سے کسی صحافی اور میڈیا پروفیشنلز کے حق زندگی اور حفاظت کی خلاف ورزی ہو۔ حکومت صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کی جبری یا رضا کارانہ گمشدگی، اغوا یا اٹھائے جانے کے خلاف تحفظ دے گی۔ وہ بلاخوف و خطر اپنا کام کر سکیں گے ،
اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ان کا حق رازداری کوئی شخص، افسر، ایجنسی یا ادارہ پامال نہ کرے۔ صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کا حق اظہار رائے رائج قوانین کے مطابق ہو گا۔ بل کے تحت قو میت، نسلی، مذہبی منافرت کو ہوا دینے والے اور امتیاز ، دہشت یا تشدد کو بھڑکانے والے مواد پر پابندی ہو گی ۔ نسلی،لسانی، ثقافتی یا صنفی نفرت پھیلانے والے مواد کی تخلیق پر بھی پابندی ہو گی۔ بل کے تحت صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کیلئے یہ بات لازم قرار دی گئی ہے کہ ایسے مواد کی اشاعت نہیں کی جائے گی جس کے غلط یا جھوٹا ہونے کا ان کو علم ہو، جو ایسا کرنے میں ناکام ہو گا اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔ سرکاری ملازم یا ادارے کی طرف سے صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز پر تشدد، نازیبا زبان کے استعمال کی صورت میں متاثرہ اس کے خلاف14 دن اندر کمیشن کے سامنے شکایت درج کرا سکیں گے۔
وفاقی محتسب یا متعلقہ ادارہ 14 دن کے اندر ہراسگی کے خلاف تفتیش اور قانونی کارروائی کے اقدامات کرے گا۔ صحافی کی شکایت پر کمیشن مشاورتی کمیٹی قائم کرے گا جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ شکایت کو سننا چاہئے یا نہیں ، کمیشن اس بات کو یقینی بنائے گا کہ صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کی شکایت پر قانونی کارروائی ہو۔ صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو دھمکی ، تشدد ، جبر کے حوالہ سے کسی کو بھی قانونی کارروائی سے استثنی حاصل نہیں ہو گا۔متاثرہ صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلزکو قانونی معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔ بل کے تحت کمیشن صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کی شکایت پر حکومت، خفیہ ادارے یا اتھارٹی سے معلومات حاصل کرے گا، ان سے رپورٹ ، دستاویزات ، ڈیٹا یا شواہد طلب کریگا۔
متعلقہ حکومت ، ایجنسی یا ادارہ 14روز میں تحقیقات اور کارروائی کرے گا ، کمیشن کے پاس تقریبا سول کورٹ جیسے اختیارات ہوں گے، جرائم کمیشن کی حدود سے باہر ہوئے تو معاملہ کومجسٹریٹ کے پاس بھجوا دے گا ، کمیشن کی سامنے سماعت عدالتی سماعت تصور ہو گی ، اچھی نیت سے کئے گئے اقدمات پر کمیشن اور افسران کو استثنی حاصل ہو گا۔میڈیا پروفیشنلز کے خلاف دھمکی آمیز ، جابرانہ اورمتشدد کارروائیوں کو فوری اور موثر تفتیش اور قانونی کارروائی سے استثنی حاصل نہیں ہوگا۔