اسلام آباد(صباح نیوز)ڈیفنس آف ہیومن رائٹس (ڈی ایچ آر)،کیج یوکے نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کی گرفتاری کی مذمت کر تے ہوئے ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے ،
اپنے مشترکہ بیان میں ڈی ایچ آر اور کیج یوکے نے کہا ہے کہ خرم پرویز کی گرفتاری کا واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا جب مقبوضہ کشمیر میں کشمیری شہریوں کے ماورائے عدالت قتل کے معاملے پر دو ہمسایہ ایٹمی ممالک پاکستان اور بھارت میں پہلے ہی کشیدگی بڑھ رہی ہے،
انہوں نے کہا کہ خرم پرویز ایک قابل احترام اور باوقار فرنٹ لائن محافظ ہیں جو 2016 میں بھی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنے جب وہ اقوام متحدہ کی 33 ویں انسانی حقوق کونسل میں شرکت کیلئے جنیوا جانے والے تھے،جہاں انہوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آنے والی جبری گمشدگیوں پر بات کرنا تھی۔
جموں و کشمیر میں انہیں بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت 76 دن زیرحراست رکھا گیا تھا۔بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کی مداخلت پر پانچ پلیٹ فارمز کے زریعے بھرپور مہم چلائی گئی جسکی بدولت اس وقت خرم پرویز کو رہائی ملی تھی،
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس (ڈی ایچ آر)،کیج یو کے نے بیان میں کہا کہ ہم انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظمیوں اور اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق ایک بہادر اور دلیر محافظ کی رہائی کیلئے اپنا کردار ادا کریں جو درندگی کی حدوں کو چھوتی انسانیت کشی کا طویل ریکارڈ رکھنے والے ممالک کو بے نقاب کرتا ہے اور جبری گمشدگی کے خلاف بڑی موثر آواز ہے،
اس سے قبل اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی برائے ایچ آر ڈیز میری لالر نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ” یہ پریشان کن رپورٹس سن رہی ہوں کہ خرم پرویز کو گرفتار کیا گیا ہے اور بھارتی حکام کی طرف سے ان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کا اندیشہ ہے،وہ دہشت گرد نہیں،انسانی حقوق کا محافظ ہے”۔
خرم پرویز کا خاندان بہت بڑے صدمے سے دوچار ہے کیونکہ یہ چیز (خرم کی حراست) انہیں مزید اذیت دینے کیلئے دوبارہ ہو رہی ہے۔ڈیفنس آف ہیومن رائٹس (ڈی ایچ آر)،کیج یو کے،اے ایف اے ڈی اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں خرم پرویز اور انکے بیوی بچوں کی زندگی،حفاظت اور بہبود کیلئے فکرمند ہیں،خرم پرویز کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون اور تعزیرات ہند کے تحت غیر ثابت شدہ اور من گھڑت آٹھ الزامات پر جس طرح حراست میں لیا گیا اور پورے خاندان کو دہشت زدہ کیا گیا،یہ انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈی ایچ آر،کیج یوکے،اے ایف اے ڈی اور دنیا کے تمام باضمیر لوگ نہ صرف اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں بلکہ خرم پرویز کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں،
واضح رہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن خرم پرویز جو جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس) کے پروگرام کوآرڈینیٹر اور ایشین فیڈریشن اگیسنٹ ان والنڑی ڈس اپیرنس (اے ایف اے ڈی) کے چیئرمین ہیں کو 22 نومبر 2021 کو گرفتار کیا گیا تھا۔این آئی اے نے پہلے انکے دفتر اور پھر سرینگر میں انکی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور کئی گھنٹے کی جامع تلاشی لینے کے بعد انہیں حراست میں لے لیا۔
اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ حکام نے ان کے خلاف غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ اور تعزیرات ہند کے تحت مقدمہ درج کیا ہے،بتایا گیا ہے کہ انہیں دہلی لے جایا گیا ھے اور ان پر ظالمانہ تشدد کا خطرہ ہے، خرم پرویز نے جبری گمشدگیوں کے خلاف بطور چیئرمین اے ایف اے ڈی پورے ایشیا اور یورپ کا سفر کیا،انہیں دنیا بھر میں انسانی حقوق کمیونٹی کی وسیع حمایت حاصل تھی۔
بین الاقوامی برادری کیساتھ ملکر انہوں نے اے ایف اے ڈی کی رکن تنظیموں جیسے پاکستان،بنگلہ دیش، لاوس،فلپائن،جنوبی کوریا،انڈونیشیا، ملائشیا، سری لنکا، تھائی لینڈ اور نیپال کیساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بات چیت کی۔انہوں نے ہمیشہ سرحدوں کے پار یکجہتی کا اظہار کیا اور وہ لاپتہ افراد کے خاندانوں اور ریاستی جبر کا شکار ہونے والوں کیساتھ کھڑے رہے۔
خرم پرویز نے دنیا بھر میں جبری گمشدگی جیسی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور انکا کام ناانصافی کے خلاف جدوجہد اور اسے چیلنج کرنے کا منہ بولتا ثبوت ہے ،خرم پرویز اپنے کیسیز اقوام متحدہ میں لے کر گئے اور بھرپور وکالت کی۔انہوں نے ایشیا میں کانفرنسوں اور بین الاقوامی مہمات میں دل کی گہرائیوں سے جبری گمشدگی جیسی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کی۔
جنیوا میں قائم لاطینی امریکی اور افریقی و یورپی تنظیموں کے گروپ(آئی سی اے ای ڈی) کا رکن ہونے کے ناطے وہ انسانی حقوق اور مظلوم کمیونٹی کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔انسانی حقوق کے محافظ کے طور پر وہ بھارت کے زیرتسلط مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے پرجوش تھے۔انہوں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہونے پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی پر کڑی تنقید کی۔مقبوضہ وادی میں سیکورٹی فورسز کی ذیادتیوں اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر متعدد رپورٹس شائع کیں۔