مسلم لیگ ن کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی نواز شریف کی مرضی سے بنی، سینیٹر عرفان صدیقی

اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما اور حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی نواز شریف کی مرضی سے بنی، بہت سی قوتیں ہیں جو دلوں میں رخنے ڈالتی ہیں، اسی لیے شہباز شریف نے وسوسوں کا لفظ استعمال کیا تھا۔

ایک نیوز ویب پورٹل کے  ساتھ خصوصی انٹرویو میں عرفان صدیقی نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کو سامنے رکھیں تو یقین اور ایمان کا نور کبھی نہیں بھرتا، دلوں میں وسوسے تو رہتے ہیں۔ہمارے ہاں صبح حکومتیں ہوتی ہیں اور شام کو نہیں ہوتیں۔ شہباز شریف نے اگر وسوسے کا لفظ استعمال کیا تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت سی قوتیں ہیں جو دلوں میں رخنے ڈالتی ہیں۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے بقول اگر اس حکومت کے 3، 4 مہینے رہتے ہیں تو پھر اس حکومت سے کیوں بات چیت کی جارہی ہے، یہ تو ویسے بھی جارہے ہیں تو کیوں وقت ضائع کررہے ہیں۔ میرے نزدیک کوئی بیک ڈور رابطے نہیں ہورہے جو ہورہا ہے مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان ہورہا ہے۔

عرفان صدیقی نے کہاکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی نواز شریف کی مشاورت اور مرضی سے بنی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے جو کمیٹی بنی وہ ابھی بھی اپنے موقف میں کلیئر نہیں ہے، کبھی کہتے ہیں کہ ملاقات نہیں کرائی جارہی، کبھی کہتے ہیں کہ اکیلے ملنا ہے۔ جب تک یہ اپنے موقف میں کلیئر نہیں ہوں گے تو بات آگے کیسے بڑھے گی۔انہوں نے کہاکہ حکومت اور اتحادیوں نے کبھی یہ بات نہیں کی کہ مذاکرات نہیں ہوں گے، ہم نے کبھی نہیں کہاکہ کسی سے ہاتھ نہیں ملائیں گے یا بات نہیں کریں گے بلکہ یہی کہاکہ ہم ہروقت بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ 26 نومبر کو فائنل کال کی ناکامی کے بعد انہوں نے ہم سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے کمیٹی بنائی اور اسپیکر کے پاس گئے۔ ہم نے ویلکم کیا اور مذاکرات کا دور شروع ہوا، 23 دسمبر کو جس کی پہلی میٹنگ ہوئی۔انہوں نے کہاکہ بیک ڈور کوئی رابطے نہیں ہورہے، وزیراعظم نے جب کمیٹی بنائی تو اس کا مطلب ہے بہت سی جگہوں سے مشاورت کی گئی ہوگی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی کہاکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہونے چاہییں۔

عرفان صدیقی نے کہاکہ مذاکرات ہو جاتے ہیں تو ضروری بات یہ ہے کہ ان پر عمل درآمد کرنے کی طاقت ہونا بھی ضروری ہے، ہم حکومت ہیں اگر کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت ضرور کرتے ہیں، دونوں ملک کے مفاد کے لیے سوچتے ہیں۔سینیئر لیگی رہنما نے کہاکہ ذاتی طور پر چاہتا ہوں کہ جو بھی وزارت داخلہ کے اندر ذمہ دار ہیں وہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کی ملاقات کرائیں، لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کیا سارا سلسلہ ملاقات کے لیے ہورہا ہے یا مذاکرات کے لیے ہورہا ہے۔ علی امین گنڈاپور عمران خان سے مل کر ایک پیغام لے کر آئے ہیں کہ تحریری مطالبات دے دیں تو پھر 8 آدمیوں کا ملنا کیوں ضروری ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم بھی جیلوں میں رہے ہیں، ہم بھی نواز شریف سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے، ہماری ملاقاتوں میں بھی تو پولیس والے کھڑے رہتے تھے، ہم تو چاہتے ہیں کہ ہماری باتیں سنیں، کیمرے لگے ہوں بے شک لیکن یہ لوگ کیوں چھپانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ ملک کے خلاف کوئی بات کررہے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جیل کا ایک نظام ہوتا ہے، کیا اس کو بائی پاس کرلیا جائے۔عرفان صدیقی نے کہاکہ اگر آپ پر پیشکشوں کی بارش ہورہی ہے، اور نوازشات ہورہی ہیں تو آپ مذاکرات سے کیا چاہتے ہیں۔ آپ کے بقول یہ تو بے بس کمیٹی ہے تو ہمیں حیرت ہے کہ ہم سے کیوں مذاکرات کررہے ہیں ہم آپ کو کیا دے سکیں گے۔اس سوال پر کہ کیا نواز شریف عمران خان کی رہائی چاہتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف قاعدے، قانون اور ضابطوں سے ہٹ کر کبھی نہیں بات کرتے، انہوں نے خود بھی رہائی نہیں لی کبھی اور نہ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی اس طرح رہائی لے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے کبھی بھی مذاکراتی کمیٹی سے یہ نہیں کہاکہ ہمارا کوئی مطالبہ ہے، ہم نے ان کو کبھی سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کا نہیں کہا، نہ ہم نے سول نافرمانی کی کال واپس لینے کا کہا۔ شاید آگے چل کر ہماری کچھ ڈیمانڈز ہوں۔ ہم یہ چاہیں گے ملک کے جو مسائل ہیں ان پر بات چیت ہو۔عرفان صدیقی نے کہاکہ میثاق جمہوریت جو اس وقت ہوئی تھی اس کو عرصہ گزر چکا ہے، اب حالات بدل گئے ہیں، لیکن عمران خان کو بھی علم ہے انہوں نے بھی بعد میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے، یہ سب مل کر بیٹھیں اور بات چیت کریں اس معاملے پر بھی بات کریں گے۔انہوں نے کہاکہ جب چارٹر آف ڈیموکریسی ہوا تھا تو اس کے بعد سے اسمبلیوں نے مدت پوری کی، لیکن عمران خان نے اسمبلیاں توڑ کر روایت کو توڑ دیا۔ یہ ہمارے ساتھ معیشت اور دیگر چیزوں پر بات کریں ہمیں تو خوشی ہوگی۔

عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ہر ملک کے حالات مختلف ہوتے ہیں، کہیں بھی کوئی قانون بنتا ہے اس کے پیچھے کوئی جرم ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سروں سے فٹ بال کھیلے جاتے ہیں۔ کسی ملک میں کوئی جماعت سیاست کا لبادہ اوڑھ کر فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہو تو قانون تو بنے گا۔انہوں نے کہاکہ یہ قانون کئی سال پہلے 1952 میں بن چکا تھا اس وقت عمران خان صاحب بھی نہیں تھے اور نہ ہی ہم تھے، اسی قانون میں ترامیم ہوتی رہی ہیں اور اسی میں سویلینز کو ٹرائل کرنے کی شق موجود ہے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے کے بعد اس ایکٹ کے تحت ٹرائل تو ہوگا۔مسلم لیگی رہنما نے کہاکہ اس میں 3 اپیلیں ہیں، پہلی اپیل چیف آف آرمی اسٹاف کے سامنے ہوگی، دوسری ہائیکورٹ میں اور تیسری سپریم کورٹ میں ہوسکے گی، لیکن یہ لوگ بے فضول نعرے بازی کررہے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ میں عام عدالتیں اس سے بھی بڑی بڑی سزائیں دے رہی ہیں۔انہوں نے کہاکہ امریکا اور بھارت میں اگر ایسا کوئی حملہ ہوتا تو آپ خود تصور کریں کہ وہ ان سیاسی جماعتوں کا کیا حال کرتے۔

عرفان صدیقی نے کہاکہ مسلم لیگ ن نے پاکستان کو دیوالیہ پن سے نکالا، افراط زر میں بہتری لائی، پاکستان کو بہتری کی طرف لے کر آئے، ہمارے 2 ووٹ کم ہو جاتے ہیں تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ ن کے لیے نواز شریف ہماری موٹیویشن ہیں، پوری طرح وہ اس نظام پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بھائی کے ساتھ اور بیٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ملک کے لیے جو بھی بہتر ہوگا قیادت ضرور فیصلہ کرے گی۔عرفان صدیقی نے کہا کہ مریم نواز شریف کی بیٹی ہیں لیکن یہ ان کا واحد میرٹ نہیں ہے، وہ سیاست میں آئی ہیں اور بڑی میچور خاتون ہیں، سیاست پر بڑی گہری نظر رکھتی ہیں۔

اپنے والد کے ساتھ رہتے ہوئے انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ جب مشکلات آئیں تو انہوں نے سختیاں بھی جھیلیں، جیلوں میں بھی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مریم نواز پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہوں نے اپنی بیمار والدہ کی کیمپیئن چلائی، جہاں سے ان کی سیاست کا صحیح آغاز ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پارٹی کو منظم رکھنے میں اور پارٹی کے اندر زندگی کی لہر قائم رکھنے میں جلسوں جلوسوں کی قیادت کرنے میں ان کا بڑا رول ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ منصب سنبھالنے کے بعد مریم نے جس قدر محنت کی، اور چھوٹی چھوٹی چیزوں پر نگاہ رکھی۔ آپ پنجاب میں جائیں آپ کو خود ایک مثبت تبدیلی نظر آئے گی۔ نوجوانوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے اور حکومتی کاردگی بھی بہت اچھی ہے۔ مستقبل میں ان کا ایک رول ہوسکتا ہے، یہ بات طے نہیں ہے لیکن ان کے حوالے سے کسی بھی وقت کوئی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ جیسے ان کے وزیر اعلی بننے کا طے نہیں تھا اسی طرح وزیر اعظم بننے کا بھی بھی طے نہیں لیکن کبھی بھی قیادت کچھ بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔۔