سید علی گیلانی اور محمد یاسین ملک کے نام پر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی مقبوضہ کشمیر ہائی کورٹ

 سری نگر:مقبوضہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے کہا ہے سید علی گیلانی  2019 میں انتقال کر گئے تھے جبکہ محمد یاسین ملک  2020 سے جیل میں ہیں چنانچے  سید علی گیلانی  اور  محمد یاسین ملک کے ساتھ کسی تقریب میں شرکت  کے نام پر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔مقبوضہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نےسید علی گیلانی  اور  محمد یاسین ملک کے ساتھ سمینار منعقد کرنے کے الزام میں قید  ایڈوکیٹ میاں مظفر کی رہائی کا حکم دیا ہے ۔مقبوضہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن  کے سابق صدر  محبوس کشمیری رہنما میاں عبدالقیوم، ایک سینئر وکیل اور جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سے متاثر تھے۔

عدالت کے بھتیجے   ایڈوکیٹ میاں مظفر  کو جولائی 2024 میں پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) 1978 کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔مقبوضہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ  کے  جسٹس موکش کھجوریا کاظمی نے کیس کی سماعت کی  انہوں نے فیصلے میں لکھا کہ  ایڈوکیٹ میاں مظفر   کو قید رکھنے  کا حکم نامہ قانونی تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام، “مبہم” اور “ناکافی بنیادوں” پر مبنی تھا۔ قید کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ  ایڈوکیٹ میاں مظفر کشمیری حریت پسند رہنماسید علی گیلانی  اور  محمد یاسین ملک کے ساتھ سمینار منعقد کرنے والے تھے ۔

عدالت نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ  قید کا حکم ناقص بنیادوں پر ہے، جس میں  حریت پسند رہنماں سید علی شاہ گیلانی اور یاسین ملک کے ساتھ سیمینار منعقد کرنے کے بارے میں مبہم دعوے بھی شامل ہیں۔ قید  کے حکم میں خامیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے، عدالت نے نشاندہی کی کہ گیلانی کا انتقال 2019 میں ہوا تھا، اور یاسین ملک 2020 سے قید ہیں، جس کی وجہ سے مظفر کے لیے ان کے ساتھ کوئی حالیہ تقریب منعقد کرنا  ناممکن ہے۔فیصلے میں، جسٹس کاظمی نے مقدمات میں عدالتی نظرثانی کے اصولوں پر زور دیا، قید کا حکم “قانون کے دائرہ کار اور مقصد سے خارج ہونے والے مواد” پر مبنی تھا۔عدالت نے مظفر کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی
 کی نشاندھی کی ۔