اسلام آباد ہائیکورٹ کی رانا شمیم کو اصل بیانِ حلفی کے ساتھ تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت


اسلام آباد(صباح نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیانِ حلفی پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کو اصل بیانِ حلفی کے ساتھ تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی، عدالت نے کیس کی مزید سماعت سات دسمبر تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ  میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم اور دیگر کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، دوران سماعت جنگ اخبار کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان، اخبار کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار احمد عباسی اور اخبار کے ر یذیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے جبکہ دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس (ر)رانا شمیم کو روسٹرم پر بلایا اور ان سے استفسار کیا کہ کیا اخبار نے آپ سے بیان حلفی کی تصدیق کی تھی؟آپ کا بیان حلفی کس مقصد کے لئے ہوگا، آپ کا بیان حلفی کس طرح باہر گیا اور کس طرح میڈیا تک پہنچا۔ ا س پر رانا شمیم نے جواب دیا کہ میرا بیان حلفی سیل تھااور میں نے کسی کو بھی یہ بیان حلفی نہیں دیا، مجھے نہیں معلوم یہ کیسے باہر گیا اور میڈیا تک پہنچا۔ اس پر عدالت نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ بیان حلفی نہیں تو آپ بتاسکتے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تین سال بعد بیان حلفی کیوں دیا، آپ کو اس حوالہ سے یہ بھی بتانا ہو گا کہ اس کا مقصد کیا تھا، اگر یہ بیان حلفی ہے تو آپ بتائیں گے کہ تین سال بعد اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس پر رانا شمیم نے کہا کہ عدالت کو بتائوں گا کہ کیوں بیان حلفی دیا۔ اس پر عدالت نے رانا شمیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو بھی کہنا ہے وہ تحریری جواب میں کہیں، یہ بہت اہم مسئلہ ہے، اگریہ بیان حلفی ہے تو بڑا شرمناک ہے۔

عدالت نے کہا کہ بیان حلفی آئندہ سماعت پرپیش بھی کیا جائے۔ عدالت نے رانا شمیم سے کہا کہ وہ کب تک بیان حلفی فراہم کریں گے۔ اس پر رانا شمیم کا کہنا تھا کہ میں دیکھتا ہوں، کیونکہ یہ یہاں پر نہیں ہے، انگلینڈ میں پڑا ہوا ہے اور یہ ان کے کسی عزیز کے ہاں لاکر میں پڑا ہوا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ رانا صاحب آپ کے حلف نامہ سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا ہے اور ہم اس کیس کو سن رہے ہیں،آپ نے خود پیش ہونا ہے یا آپ نے کسی کو وکیل مقررکیا ہے۔اس پر رانا شمیم نے عدالت کو بتایا کہ میں نے لالہ عبدالطیف آفریدی کو اپنا وکیل مقررکیا ہے، وہ میرے حوالے سے عدالت میں دلائل دیں گے اور جو بھی صورتحال ہو گی اس کے حوالے سے عدالت کوآگاہ کریں گے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ وہی حلف نامہ ہے جو آپ نے جاری کیا تھا یا آپ نے بنایا ہے اور اس کو نوٹرائزڈ کروایا ہے یا یہ کوئی اورحلف نامہ ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے اپنے لئے کچھ اصول طے کئے ہیں۔ توہین عدالت سے متعلق اصول فردوس عاشق کیس میں طے کر چکے۔ رانا شمیم نے کہا کہ اخبار کی جانب سے بیان حلفی چھاپنے کے بعد مجھ سے تصدیق کی گئی، اصل بیان حلفی سربمہر موجود ہے تاہم ابھی اس کا متن مجھے یاد نہیں ۔

اٹارنی جنر ل کا کہنا تھا کہ ساری ذمہ داری رانا شمیم کے اوپر عائد ہوتی ہے، لگتا ہے کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت عدالت کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ رانا شمیم کے بیان کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیاجائے کیونکہ10نومبر کودیا جانے والا بیان ان کو یاد نہیں اور تین سال پرانی بات بیان حلفی میں دی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ اخبار سے باہر آرہاہے اگر اصل بیان حلفی اخبار میں چھپنے والی خبر سے مختلف ہو اتو پھر یہ اخبار کے لئے سوالیہ نشان ہو گا۔ عدالت نے کہا کہ اب ہمیں اصل بیان حلفی دیکھنا ہو گا کہ اس میں ہے کیاجبکہ عدالتی معاون فیصل صدیقی نے اٹارنی جنرل سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ کو بڑے حساس انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ رانا شمیم نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس کی سماعت 12دسمبر کے بعد تک ملتوی کردیں کیونکہ ان کے خاندان میں دو چالیسیویںہیں۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بڑی اہم نوعیت کا مسئلہ ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ عدلیہ کو پولیٹیسائز کیا جائے۔

عدالت نے رانا شمیم کو ہدایت کی کہ وہ اصل بیان حلفی کی کاپی جمع کروائیں۔ اس پر رانا شمیم نے کہا کہ میں جواب تو جمع کروادوں گا لیکن اصل بیان حلفی لند ن میںموجود ہے اوروہاں سے منگوانے کے لئے وقت درکار ہوگا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے پیشکش کی آپ یہ بیان حلفی لندن میں پاکستانی سفارتخانہ میں جمع کروادیں ہم اس کو یہاں لانے کے لئے انتظامات مکمل کردیتے ہیں۔عدالت نے کیس کی سماعت سات دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ہر صورت اصل بیان حلفی جمع کرایا جائے۔