واشنگٹن(صباح نیوز) اسرائیل کے بعد نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکہ کا نیا نقشہ جاری کیا ہے جس میں کینیڈا کو بھی شامل کر لیا گیا ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایسے امریکی نقشوں کی تصاویر شیئر کی ہیں، جن میں کینیڈا کو بھی شامل کیا گیا ہے۔نقشے میں کینیڈا اور امریکا کو ایک ملک دکھایا گیا ہے، پورے نقشے پر امریکا کا جھنڈا بنا ہے، اس تصویر کے ساتھ کیپشن میں ٹرمپ نے او کینیڈا بھی لکھا ہے۔یہ نقشے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں، ناقدین لکھ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اب کہ کینیڈا کے جنون میں مبتلا ہو گئے ہیں، انھوں نے گزشتہ روز ایک نیوز کانفرنس میں دونوں ممالک کے درمیان موجود سرحد کے بارے میں کہا تھا کہ یہ بس ایک مصنوعی لکیر ہے،
جس سے چھٹکارا پایا جائے تو یہ قومی سلامتی کے لیے بہتر ہوگا۔انھوں نے کہا یہ نہ بھولیں کہ ہم ہی کینیڈا کی حفاظت کر رہے ہیں، میں کینیڈا کے لوگوں سے محبت کرتا ہوں، لیکن یہاں کینیڈا کے ساتھ ایک مسئلہ ہے، ہم اس کی حفاظت کے لیے ایک سال میں سیکڑوں اربوں خرچ کر رہے ہیں، لیکن تجارتی خسارے میں ہار جاتے ہیں۔منگل کو 41 ملین آبادی والے ملک کینیڈا کے سلسلے میں اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ دونوں ممالک کو معاشی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے جوڑنے کی کوشش کریں گے، اور درمیان میں موجود مصنوعی لکیر کو ختم کریں گے۔دوسری طرف کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی مسترد کرتے ہوئے کہا ہے، کہ کینیڈا قیامت تک امریکا میں ضم نہیں ہو سکتا۔دوسری جانب
نو منتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ڈنمارک کی ملکیت 21 لاکھ 66 ہزار مربع کلومیٹر دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ گرین لینڈصل کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں قومی سلامتی اور آزادی کے مقاصد کے لیے امریکہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے گرین لینڈ کی ملکیت اور کنٹرول کی بہت ضرورت ہے۔گرین لینڈ اور ڈنمارک دونوں ہی ٹرمپ کی اس تجویز کو مسترد چکے ہیں جبکہ فرانس اور جرمنی نے اپنے ردعمل میں اس کی مخالفت کی ہے۔۔ گرین لینڈ ڈنمارک کی دولت مشترکہ کا ایک حصہ ہے۔جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا ہے کہ سرحدوں کے ناقابل تسخیر ہونے کا اصول ہر ملک پر لاگو ہوتا ہے، چاہے وہ چھوٹا ملک ہو یا بہت بڑی طاقت۔فرانسیسی وزیر خارجہ جین نوئل بیروٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ یورپی یونین دنیا کی دیگر اقوام کو اپنی خود مختار سرحدوں پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ وی او اے کے مطابق گرین لینڈ، بحر اقیانوس اور آرکٹک اوقیانوس کے درمیان واقع دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے جو ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کی نسبت نیویارک سے زیادہ قریب ہے۔اس جزیرے پر 14 ویں صدی سے ڈنمارک کا کنٹرول ہے، تاہم 1979 میں گرین لینڈ کو ایک خودمختار علاقے کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔
اس کا اپنا وزیراعظم اور اپنی حکومت ہے، لیکن وہ ڈنمارک کی دولت مشترکہ کا حصہ ہے جو اس کی مالی ضروریات کا ایک بڑا حصہ برداشت کرتا ہے۔گرین لینڈ میں امریکی فضائیہ کا ایک بڑا اڈا قائم ہے اور اس جزیرے کی برف پوش تہوں کے نیچے قیمتی معدنیات کے خزانے موجود ہیں، جن میں یورینیم اور بڑی مقدار میں تیل اور قدرتی گیس شامل ہیں۔گرین لینڈ کا رقبہ 21 لاکھ 66 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ آبادی 57 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ زیادہ تر لوگ ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ جزیرے میں گرین لینڈ کی مقامی زبان کے ساتھ ساتھ ڈینش اور انگریزی بھی بولی جاتی ہے۔ ملک کے سربراہ ڈنمارک کے کنگ فریڈرک ہیں جب کہ موٹ بوروپ ایگیڈ وزیراعظم ہیں۔گرین لینڈ میں ہر سال دو مہینے ایسے بھی آتے ہیں جب سورج لگاتار چمکتا رہتا ہے اور غروب ہی نہیں ہوتا۔ جزیرے کے 80 فی صد سے زیادہ حصے پر برف کی چار کلو میٹر سے زیادہ موٹی تہہ ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث تیزی سے پگھل رہی ہے۔نیو یارک یونیورسٹی میں آب و ہوا کے سائنس دان ڈیوڈ ہالینڈ کہتے ہیں کہ گرین لینڈ ایک ایسے خطے میں ہے جو باقی دنیا کے مقابلے میں چار گنا زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔ہالینڈ کا مزید کہنا تھا کہ گرین لینڈ میں صرف برف ہی نہیں پگھل رہی بلکہ اس کا رنگ روپ بھی تبدیل ہو رہا ہے اور وہ میلوں تک پھیلی ہوئی برف کی سفید چادر کی بجائے کہیں پر نیلا(پانی کا رنگ) اور کہیں سبز (نباتات کی رنگت ) ہو رہا ہے۔اس کا اثر دنیا بھر کے موسموں پر بھی پڑ رہا ہے۔ کیونکہ برف کی سفیدی سورج کی کرنوں کی روشنی اور حرارت کو پلٹ دیتی ہے جب کہ نیلا اور سبز رنگ اسے جذب کر لیتا ہے۔