اسلام آباد(صباح نیوز)معروف صحافی و اینکر پرسن حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے خود ایک بڑی اہم طاقتور شخصیت کو کہہ کر اوردباؤ ڈال کر ان کا سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ جیو پر انٹرویو رکوایا۔صدر زرداری نے بہت مختصر جواب میں براج گروپ کے عارف نقوی سے متعلق رازوں سے پردہ اٹھایا تھا ۔ آصف علی زرداری نے عارف نقوی کے بارے میں صرف دو یا تین جملے بولے تھے ، لیکن عمران خان اتنے حساس تھے کہ انہوں نے پورا انٹرویو رکوادیا۔ اس بات کا انکشاف حامد میر نے ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ انٹرویو میں کیا۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ 2019میں عارف نقوی کو جب لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تو اس وقت وہ خبر اتنی مشہور نہیں ہوئی تھی، ان کے پاس جو آئی فون تھا جب وہ برآمد ہوا تواس میں سے جو ان کے رابطہ نمبر (Contact Number List )تھے ، ان میں صدر ڈکٹرعارف علوی اور عمران خان دونوں کے نمبر اس میں سے ملے۔ اس کے بعد میں نے روٹین میں سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ انٹرویو کیا۔وہ اس انٹرویو میں بار بار کہتے تھے کہ عمران خان جارہا ہے۔ جب انہوں نے دوسری یا تیسری دفعہ کہا کہ خان جارہا ہے تو میں نے پوچھا آپ بار بار یہ بات کررہے ہیں، آپ تو خود نیب کے کیسوں میں پھنسے ہوئے ہیں اورآپ پروڈکشن آرڈرز پرآئے ہیں توآپ کس طرح یہ دعوی کررہے رہے ہیں۔اس پر انہوں نے کہا کہ تمہیں نہیں پتہ عارف نقوی کو برطانیہ میں پکڑلیا گیا ہے، عارف نقوی اس عمران خان کے بارے میں سب کچھ بتائے گا۔ یہ تو وہ طوطا ہے جس میں عمران خان کی جان ہے۔ یہ بات انہوں نے کردی۔ یہ انٹرویو میں نے جمعہ کے روز کیا تھا، انٹرویو میں سے اس کی ایک خبر چل گئی۔ دو، تین دن اس کا پرومو چلتا رہا۔ہم نے عارف نقوی والا پورشن کسی پرومو میں نہیں ڈالا ۔سوموار کے دن یہ انٹرویو تفصیل سے چلنا تھا۔ باقی خبر چل گئی تھی۔ کوئی کسی نے اعتراض نہیں کہ آپ نے صدر زرداری کا انٹرویو کیوں کیا۔؟
حامد میر کا کہنا تھا کہ جوپروڈیوسرہوتے ہیں ان کو چیز کی مارکیٹنگ کرنے کا بڑا شوق ہوتا ہے ، میری غلطی یہ تھی کہ میں نے اپنے پروڈیوسر کو نہیں سمجھایا، اس نے کہا کہ آج یہ انٹرویو چلنا ہے میں اس کی کوئی نئی اسٹوری نکالتا ہوں، اس نے عارف نقوی والا پورشن خبر میں چلوا دیا۔جیسے ہی وہ خبر چلی ہے مجھے فون آنا شروع ہو گئے کہ اس انٹرویو میں اور کیا کیا ہے۔؟ میں نے کہا روٹین کا انٹرویو ہے زرداری صاحب نے بڑی، بڑی باتیں کی ہیں ، اب ساڑھے سات، پونے آٹھ بج گے، مجھے شک پڑ گیا کہ کوئی کام خراب ہو گیا ہے۔ اس دن عمران خان آٹھ بجے اے آروائی پر انٹرویو دے رہے تھے اورجیو پر زرداری صاحب کاآٹھ بجے انٹرویو چلنا تھا۔ جیسے ہی انٹرویو شروع ہوا آٹھ بجکر چھ یا سات منٹ پر اچانک سکرین سے انٹرویو غائب ہو گیا اور لائن کٹ گئی، تومیں بڑا حیران ہوا، میں اِدھر ادھر فون کررہا ہوں کسی کو سمجھ نہیں آرہی، میں کیا کرتا، میں کوئی فیصلہ ساز تونہیں ہوں ، میں توایک ورکنگ جرنلسٹ ہوں ، میں نے ایک ٹویٹ کردی کہ میری طرف سے بہت معذرت انٹرویو پورا نہیں چلا۔ میں نے آزادی صحافت کا رونا ، رونا شروع کردیا۔ بعد میں جب میں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان نے خود ایک بڑی اہم طاقتور شخصیت کو کہہ کر اوردباؤڈلوا کر ان کا سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ جیو پر انٹرویو رکوایادیا ہے۔ اصل مسئلہ کیا تھا عارف نقوی بارے انکشافات۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نے عارف نقوی کے بارے میں صرف دو یاتین جملے بولے تھے لیکن عمران خان اتنے حساس تھے کہ انہوں نے پورا انٹرویو رکوادیا اوراس انٹرویو کے رکنے سے رولا پڑ گیا۔ بی بی سی نے اسٹوری کردی، اب کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نیویارک سے مجھے فون کررہی ہے ، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈر پیرس سے مجھ سے رابطہ کررہی ہے، فری پریس ان لمیٹڈ فون کررہی ہے ، کیا ہو گیا جی کیا ہوگیا، میں بتا رہا ہوں ، رولا پڑ گیا، اب صحافیوں نے بھی مذمت شروع کردی، عمران خان کے ایک وزیر میرے پاس آگئے کہ یار یہ چھوٹی سی بات ہے اس کو آپ نے اتنا بڑا بنا دیا، میں نے کہا بھائی جان آپ کے خیال میں چھوٹی سی بات تھی لیکن لگتا یہ ہے کہ یہ جو عارف نقوی ہے یہ خان صاحب کی کوئی بہت بڑی کمزوری ہے،اس وزیر کو اتنا علم نہیں تھا وہ تو میرے پاس صرف پیغام لے کر آیا تھا کہ اگر تمہیں لگتا ہے کہ کوئی ایسی ویسی چیز نہ ہو جس سے عارف نقوی کا کیس خراب ہو تو وہ نکال کر چلوادو۔