الیکشن وقت پر اورحکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی،پی ڈی ایم کا اعلان


اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے عمران خان کے حمایتیوں کے خلاف سخت پالیسی اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر کیس میں عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف عوامی مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے،نواز شریف نے کہا کہ  لاڈلے کا 4 سالہ گند ہم پر ڈال دیا گیا،  صرف ملک بچانے کے لیے حکومت میں آنا قبول کیا ، اجلاس میں دو قرار دادیں بھی منظوری کی گئیں،پی ڈی ایم کی جانب سے فل کورٹ کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لئے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ بھجوانے کا متفقہ مطالبہ سامنے آیا ہے، جبکہ ایک اور قرار داد میں الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ فوری سنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن پراسرار خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہے حالانکہ ثابت شدہ غیرملکی فنڈنگ جوہری پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے بھی ایک نہایت سنگین پہلو ہے جس پر آنکھیں بند کرنا قومی سلامتی کے مفادات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔  اہم مقدمے کے فیصلے کے سامنے آنے میں 8 سال کی طویل تاخیر نے ملک میں لاقانونیت کو فروغ دیا اور اداروں کی کمزوری کا تاثر مضبوط ہورہا ہے۔ یہ صورت حال کسی جمہوری معاشرے کے لئے مفید نہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہالیکشن وقت پر ہوں گے، حکومت مدت پوری کرے گی،عمران خان کا ساڑھے 3 سال کا گند 1 سال میں صاف کرنا مشکل ہے، حکومتی سطح پر کچھ فیصلے ہوئے ایک دودن میں سامنے آ جائیں، یہ جرم کا مگرمچھ ہے اب اس کے گریبان میں ہاتھ پڑے گا، جبکہ مریم نواز نے کہا کہ  اگر انجانے میں جج صاحب سے غلطی ہوگئی تو تصحیح کرلیں،عمران خان کی حیثیت ایک بلی سے زیادہ نہیں،اگر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہیں آتا تو ہم الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا دیں گے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعلی ٰپنجاب کے انتخاب سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کا سربراہی اجلاس سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت مسلم لیگ ن سیکرٹریٹ چک شہزاد اسلام آباد میںہوا ،جس میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب، شاہد خاقان عباسی، آفتاب شیرپاو، طاہر بزنجو، کیپٹن صفدر اور دیگر رہنماں نے شرکت کی۔اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اہم بیٹھک میں  سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ ، سیاسی صورت حال اور پنجاب میں گورنر راج لگانے یا نہ لگانے سے متعلق پر مشاورت کی گئی جبکہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب کی رولنگ پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی بات چیت کی گئی۔ ذرائع کے مطابق  مولانا فضل الرحمان نے اجلاس میں عدلیہ فیصلے کے خلاف یوم سیاہ منانے کی تجویز دی جبکہ مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی، اے این پی سمیت دیگر ہم خیال جماعتوں کو پی ڈی ایم میں شامل کرنے کی تجویز دی۔جمیعت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اب ہمیں واضح سمت کا تعین کرنا ہوگا جبکہ کھیل کے سارے کرداروں سے متعلق بھی جاننا ہوگا،الیکشن کمیشن پر پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد سنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم اجلاس میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا کہنا تھا کہ لاڈلے کا 4 سالہ گند ہم پر ڈال دیا گیا۔مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ صرف ملک بچانے کے لیے حکومت میں آنا قبول کیا ورنہ تو پہلے دن سے ہی حکومت میں آنے کا مخالف تھا۔

اجلاس میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے استعفی فوری منظور کرنے کا مطالبہ کیا جس پر مولانا فضل الرحمان نے بھی مریم نواز کے مطالبے کی تائید کی۔ مریم نواز کا ظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہمارا فل کورٹ کا جائز مطالبہ نہیں مانا گیا، اب ہمیں نظرثانی میں جانا ہے یا خاموش رہنا ہے، فیصلہ کرنا ہوگا۔  مفاہمتی پالیسی کے بیانیے نے ہر اہم موقع پر ہمیں اب نقصان پہنچایا، عمران خان کے حمایتیوں کے خلاف سخت پالیسی اپنانا ہوگی۔ مریم نواز نے کہا کہ ضمنی انتخابات میں شکست کی وجوہات کی تحقیقات ہونی چاہییں، وفاقی حکومت میں مزید رہنا پارٹی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ آئندہ انتخابات کی تیاری کیلئے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے، بغیر کوئی وقت ضائع کیے آئندہ انتخابات کیلئے عوام کو موبیلائز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر شاہد خاقان نے کہا کہ مفاہمتی پالیسی نے شروع دن سے ہی ہمیں نقصان پہنچایا، حکومت کرنی ہے، الیکشن کروانا ہے یا کوئی اور راستہ اختیار کرنا ہے، فیصلہ کر لیں اور ڈٹ جائیں۔

ذرائع کے مطابق عدالتی اصلاحات کے حوالے سے قومی اسمبلی سے منظور قرارداد کا خیر مقدم کیا گیا۔ جبہ  اجلاس کے دوران پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے سپریم کورٹ کی جانب سے مسلم لیگ ق کے 10 ووٹ مسترد کیے جانے کی ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری رولنگ کیس میں عدالتی فیصلے کو مسترد کر دیا۔ پی ڈی ایم  کے اجلاس میں پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر دباو بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اتفاق کیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا جلد فیصلہ سنانے کیلئے خط لکھا جائے گا،  پی ڈی ایم ارکان کی جانب سے مریم نواز کی پنجاب کے ضمنی انتخابات کے دوران عوامی مہم کی بھی تعریف کی گئی، پی ڈی ایم کا پرویز الہی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد سمیت تمام آپشنز کا جائزہ لینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

پی ڈی ایم اجلاس میں اکثریتی ارکان نے وفاقی حکومت نہ چھوڑنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت میں رہ کر عوام کو ریلیف دینا چاہیے،  پی ڈی ایم اجلاس میں نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق آپشنز کا بھی جائزہ لیا گیا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ  کے سربراہی اجلاس میں  متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ فل کورٹ کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح حاصل کرنے کے لئے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ بھجوایا جائے۔ قرارداد میں کہاگیا ہے کہ  اجلاس قرار دیتا ہے کہ دستور پاکستان 1973 میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اداروں کو ریاستی اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔

آئین میں واضح طور ہر ادارے کے ذمہ داری اور اس کا دائرہ کارمتعین ہے۔ کوئی ادارہ دستور کے تحت کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی دوسرے ادارے کی ذمہ داری کو خود انجام دے سکتا ہے۔ اجلاس کی متفقہ رائے ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حالیہ عدالت عظمی کے فیصلے سے شدید ابہام ، افراتفری اور بحران پیدا ہوا ہے۔ فیصلہ دینے والے عدالت عظمی کے پانچ رکنی بینچ کے دو معزز جج صاحبان نے تین جج صاحبان کی اکثریتی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے فیصلے کو آئین میں اضافہ قرار دیا ہے۔ ملک کی نمائندہ سیاسی وجمہوری جماعتوں نے اس پراپنی بے چینی اور تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ عدالت عظمی کے فیصلے میں تشریح کے دستوری حق سے تجاوز کیاگیا ہے جس سے نہ صرف ایک آئینی وسیاسی بحران پیدا ہوا بلکہ اس کے نتیجے میں ملک میں شدیدسیاسی عدم استحکام نے بھی جنم لیا ہے ۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت پاکستان بھر کی نمائندہ وکلاتنظیموں، نامور قانون دانوں ، میڈیا اور سول سوسائیٹی نے بھی عدالت عظمی کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا اور اسے دستور کی کھینچی ہوئی لکیر سے انحراف اور تجاوز سے تعبیر کیا ہے۔ قرار داد کے مطابق قومی اسمبلی اور پھر پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے حالیہ انتخاب کے دوران آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے تناظر میں جو الگ الگ معیارات اور تشریحات سامنے آئیں، اس نے سیاسی جماعتوں، وکلابرادری، میڈیا اور سول سوسائیٹی کے خدشات کو درست ثابت کردیا ہے۔ لہذا ملک کو اس آئینی، قانونی اور سیاسی بحران سے نکالنے کے لئے اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کو بھجوایا جائے تاکہ فل کورٹ تشکیل دے کر اس معاملے پرتشریح حاصل کی جائے۔  اجلاس میں ایک اور متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ 8 سال سے زیرالتوا فارن فنڈنگ کیس کا فی الفور فیصلہ سنایا جائے۔ قرارداد میں کہاگیا ہے کہ پی ڈی ایم کا سربراہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ الیکشن کمشن آف پاکستان آئین، قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ مزید کسی تاخیر کے بغیرصادر کرے۔

اس تاخیر میں تشویش کا پہلو یہ ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے فراہم کردہ ناقابل تردید شواہد، سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ، غیرجانبدار آڈیٹرز کے فارنزک تجزیے سے تمام جرائم ثابت ہوگئے ۔ ثابت ہوچکا ہے کہ پی ٹی آئی نے ہر سال الیکشن کمیشن سے اپنے درجنوں اکاونٹس چھپائے، جھوٹے و جعلی بیان حلفی ، سرٹیفکیٹ اور ڈکلیریشن جمع کرائے ، 88 غیرملکی شہریوں نے ممنوعہ غیرملکی فنڈنگ کی جس میں اسرائیل اور بھارت کے شہری بھی شامل ہیں، 350 غیرملکی کمپنیوں نے ممنوعہ فنڈنگ کی،منی لانڈرنگ ہوئی، پارٹی کے مرکزی دفتر کے ملازمین کے نجی اکاونٹس کے ذریعے ملک کے اندر اور باہر سے بھاری رقوم جمع کی گئیں۔ اجلاس قرار دیتا ہے کہ یہ شواہد متقاضی ہیں کہ قانون اپنا راستہ لے لیکن الیکشن کمیشن پراسرار خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہے حالانکہ ثابت شدہ غیرملکی فنڈنگ جوہری پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے بھی ایک نہایت سنگین پہلو ہے جس پر آنکھیں بند کرنا قومی سلامتی کے مفادات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔  اجلاس محسوس کرتا ہے کہ اس اہم مقدمے کے فیصلے کے سامنے آنے میں 8 سال کی طویل تاخیر نے ملک میں لاقانونیت کو فروغ دیا اور اداروں کی کمزوری کا تاثر مضبوط ہورہا ہے۔

یہ صورت حال کسی جمہوری معاشرے کے لئے مفید نہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کی تنظیم اور مالیاتی امورمتعلق اس اہم مقدمے میں فیصلہ صادر کرکے آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے۔ اجلاس اس امر پر تشویش ظاہر کرتا ہے کہ فارن اور ممنوعہ غیرقانونی فنڈنگ کی مرتکب جماعت اور اس کے سربراہ نے ملک کے آئین اور قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے اور اس سے یہ تاثر مضبوط ہورہا ہے کہ ریاستی اداروں کی ڈھیل کے نتیجے میں اس شخص نے خود کو قانون سے بالاتر سمجھ لیا ہے۔ اس کیس میں فوری فیصلہ آنا اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے اور طاقتور مجرم قانون کے تابع ہے۔  اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ڈی ایم  سربراہی اجلاس میں نوازشریف، شہبازشریف، محمود خان اچکزئی ویڈیولنک کے ذریعے شریک ہوئے، اجلاس میں ملکی صورتحال پربڑی سنجیدگی کے ساتھ غورکیا گیا، پی ڈی ایم کا ابھی اجلاس جاری ہے اورچند روزمزید جاری رہے گا، الیکشن اپنے وقت پرہوں گے، حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، عمران خان کے گزشتہ ساڑھے تین سالوں کا گند ایک سال میں صاف کرنا مشکل ہے، ہم عمران خان کے جھوٹے بیانیے کوشکست دیں گے، یہ قوم کے جوانوں کوگمراہ کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی ساکھ بچانا ہمارے لیے چیلنج ہے،ہم ملک کے مستقبل کوبچائیں گے، حالیہ عدالتی فیصلے سے شدید سیاسی بحران پیدا ہوا ہے جومعاشی بحران کا سبب بن رہا ہے۔ بارایسوسی ایشنز، میڈیا، سول سوسائٹی نے عدالت کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا، آرٹیکل63اے کی تشریح میں الگ الگ معیارسامنے آیا ہے، صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کوبھجوایا جائے تاکہ فل کورٹ بنا کرتشریح حاصل کی جاسکے۔ پی ڈی ایم سربراہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے فارن فنڈنگ کیس کا فوری فیصلہ سنایا جائے، الیکشن کمیشن آئین وقانون کے مطابق فیصلہ سنائے، سٹیٹ بینک، سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ سے تمام جرائم ثابت ہوچکے ہیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں اپنے اکاونٹس چھپائے، اسرائیل،بھارت کے شہریوں سے ممنوعہ فنڈنگ لی گئیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے افراتفری اور سیاسی بحران پیدا ہوا، سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تشویش کا اظہارکیا ہے، آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ بھجوایا جائے۔ سوشل میڈیا پر یہ جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں، ان کے آگے پیچھے چھوٹی، موٹی تتیلیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے، حکومتی سطح پر کچھ فیصلے ہوئے ایک دودن میں سامنے آ جائیں، یہ جرم کا مگرمچھ ہے اب اس کے گریبان میں ہاتھ پڑے گا، کبھی کہتا ہے امریکا نے ہٹایا امریکا توتمہیں لایا تھا۔ معاشی بحران بڑا چیلنج نہیں معیشت کو دوبارہ اٹھانا چیلنج ہے، اب بھی بیورو کریسی میں پرانے عناصر موجود ہے جو فیصلوں کو روک رہے ہیں، اگلا اجلاس میں حکومتی اتحاد کے اراکین شامل ہوں گے، ملکی معیشت سے منسلک ادارے ہمیں منگل والے دن بریفنگ دیں گے، عمران خان کا بیانیہ جھوٹ بولنا ہے۔اس موقع پرمریم نواز کا کہنا تھاکہ  یکطرفہ اور ناانصافی پر مبنی فیصلے کی وجہ سے فل کورٹ نہیں بنا، لاڈلے کو نوازانہ تھا اس لیے فل کورٹ نہیں بنا، انصاف کا قتل ہوا ہے، اگرنیت میں کوئی خرابی نہ ہوتی تو فل کورٹ بنانے میں کوئی عار نہیں تھی، اس فیصلے نے عدالت کے پچھلے فیصلے کو خود ہی اڑا کر رکھ دیا، مجھے پورا یقین تھا فل کورٹ نہیں بنے گا۔

اگر انجانے میں جج صاحب سے غلطی ہوگئی تو تصیح کرلیں، اگرغلطی کی تو لاڈلے کے حق میں، اگرتصیح کی تو لاڈلے کے حق میں کی، ہمارے 25 اورچودھری شجاعت کے 10 ممبران بھی عمران کی جھولی میں گئے، اگر غلطی کی تصحیح کرنا تھی تو اقامہ کی غلطی کو کر لیتے، ثاقب نثارنے عمران کوصادق اورامین کا سرٹیفیکیٹ دیا اس کی تصیح کرتے۔  انہوں نے کہا کہ جھوٹے، بے ایمان شخص کو صادق اور امین بنا کر مسلط رکھا، سپریم جوڈیشل کونسل میں آج سابق جج شوکت عزیز صدیقی کو نہیں سنا جا رہا، دور بین لگا کر دیکھتے رہے نوازشریف کے خلاف ثبوت نہیں ملے، میرے والد کے ساتھ زیادتی در زیادتی کررہے ہیں۔ لاڈلے کی باری آئی تو چند ہفتوں بعد کہہ دیا سب کچھ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہوتا ہے، میں اور مولانا ادارے کی توہین نہیں کر سکتے، جب ایسے فیصلے آئے تو اندرسے توہین ہوتی ہے، ادارے کا کام آئین کی تشریح کرنا ہے، قانون سازی نہیں، اگرآپ نے قانون سازی کرنی ہے تو پھر اسمبلیوں کو تالا لگا دیں، پرویزالہی ہمیشہ عدالتی وزیراعلی ہی کہلوائیں گے، حمزہ شہبازسے وزارت چھین کر پلیٹ میں رکھ کردی گئی۔

آئین کی تشریح چہروں کودیکھ کربدل دیتے ہیں، یہ ہے آپ کا انصاف؟ آئین کوعوامی منتخب نمائندوں نے بنایا، جان بوجھ کرمتنازع 3 رکنی بنچ کولایا جاتا ہے، اس قسم کے فیصلے سرجھکا کر تسلیم نہیں کرسکتے، اگر ن لیگ کا ڈپٹی سپیکر ہو تو اسے عدالت میں کھڑا کیا جاتا ہے، ڈپٹی سپیکر عمران خان کا ہو تو اسے بلایا نہیں جاتا، یہ عدالتی ناانصافی ہے۔ لیگی نائب صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک ہی چیز فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہے، کیس کو 8 سال ہو گئے ہیں، نوازشریف اورمیں جج بشیر کی عدالت میں روزانہ پیش ہوتے تھے، بھارتی، اسرائیلی شہریوں سے ممنوعہ فنڈنگ لی گئی، اگر مولانا،نوازشریف، مریم نواز نے اسرائیل،بھارت سے ممنوعہ فنڈنگ لی ہوتی تو کیا ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوتا؟ منتخب وزیراعظم کواقامے کی بنیاد پرنکال دیا گیا۔

ہر سال الیکشن کمیشن میں جھوٹے کاغذات جمع کراتا رہا، خفیہ طریقے سے ملازمین کے اکاونٹ میں پیسے منگواتا رہا،مریم نواز نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد سنایا جائے، الیکشن کمیشن اس کے خفیہ اکاونٹ سامنے لائے، فارن فنڈنگ کے سارے حقائق قوم کے سامنے بلا تاخیر لائے جائیں، عمران خان کی حیثیت ایک بلی سے زیادہ نہیں ہے، چیف الیکشن کمشنرکوعمران خان نے سلیکٹ کیا تھا۔ ممنوعہ فنڈنگ پاکستان میں منتخب حکومت کو گرانے اور پاکستان کو عدم استحکام کرنے کے لیے استعمال ہوئی، یہ کوئی طریقہ نہیں آکر گالیاں نکالے اور بلی بن جائے، اگرفارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہیں آتا تو پھر تمام جماعتیں الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا دیں گی۔