نئی دہلی (صباح نیوز)انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والی 18 سالہ دلت خاتون نے 64 مردوں پر گینگ ریپ کا الزام عائد کیا ہے۔ خاتون کا دعوی ہے کہ یہ افراد اسے گذشتہ پانچ برس سے نشانہ بنا رہے تھے۔پولیس نے اس سلسلے میں اب تک 28 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
پولیس نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ ان میں سے دو ملزمان 17 سال کے نابالغ ہیں جبکہ دیگر ملزمان کی عمریں 19 سے 47 سال کے درمیان ہیں۔ملزمان میں خاتون کے پڑوسی، کھیلوں کے کوچ اور اس کے والد کے دوست شامل ہیں۔مذکورہ خاتون نے اس مبینہ بدسلوکی کے بارے میں پہلی بار ایک سرکاری پروگرام کے تحت اس کے گھر کا دورہ کرنے والے کونسلرز کی ٹیم کو بتایا۔پولیس نے اس معاملے میں انڈیا کے مختلف فوجداری قوانین کے ساتھ ساتھ شیڈول ذاتوں اور قبائل سے مظالم کی روک تھام کے قانون کے تحت اب تک 18 مقدمات درج کیے ہیں۔ یہ شکایات دو تھانوں میں درج کی گئی ہیں۔
دلت ہندو مذہب میں ذاتوں کے درجہ بندی میں سب سے نچلے درجے پر ہیں اور انھیں تحفظ فراہم کرنے کے قوانین کے باوجود انڈیا میں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔سینیئر پولیس اہلکار نند کمار ایس نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کے ایکٹ کے تحت بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں کیونکہ یہ جرائم پچھلے پانچ سالوں میں ہوئے ہیں جب خاتون نابالغ تھی۔پولیس افسر نے بتایا کہ لڑکی کے ساتھ پچھلے پانچ سالوں میں تین بار اجتماعی ریپ کیا گیا۔
آنے والے دنوں میں مزید مقدمات درج ہونے کی توقع ہے کیونکہ پولیس ابھی بھی معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے جس کے لیے 25 رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔سپرنٹنڈنٹ آف پولیس وی جی ونود کمار کو اس ایس آئی ٹی کا سربراہ بنایا گیا ہے، جبکہ ڈی ایس پی نند کمار ایس کو بھی اس ایس آئی ٹی میں ان کے ساتھ رکھا گیا ہے۔نند کمار اس کیس کے تفتیشی افسر رہیں گے لیکن اس ٹیم میں مزید تفتیشی انسپکٹرز شامل کیے گئے ہیں۔ یہ تمام لوگ ترواننت پورم رینج کی ڈی آئی جی اجیتا بیگم کے ماتحت کام کریں گے۔یہ ایس آئی ٹی اس مبینہ اجتماعی جنسی استحصال کے معاملے میں 64 میں سے 28 ملزمان کی گرفتاری کے بعد تشکیل دی گئی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مبینہ جنسی استحصال اس وقت شروع ہوا جب لڑکی کی عمر 13 سال تھی۔اس معاملے میں متاثرہ لڑکی کے پڑوسی اور بچپن کے دوست کو پہلا ملزم بنایا گیا ہے، الزامات کے مطابق لڑکی کو پہلی بار اس کے گھر کے قریب گینگ ریپ کیا گیا تھا۔لڑکی کے پڑوسی نے مبینہ طور پر دوبارہ اس کا جنسی استحصال اس وقت کیا جب وہ 16 سال کی تھی۔ اس وقت ملزم نے اس عمل کی ویڈیوز ریکارڈ کیں اور اسے کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ شیئر کیا جو آنے والے کئی برسوں تک اس لڑکی کو جنسی حملوں کا نشانہ بناتے رہے۔کرائم برانچ کے میڈیا سیل کے سجیو ایم نے کہا ملزم کے فون پر جنسی ہراسانی کے ثبوت ملے ہیں۔
اس نے ان کا استعمال لڑکی کو بلیک میل کرنے، اس کا جنسی استحصال کرنے اور اسے اپنے دوستوں کے پاس لے جانے کے لیے کیا۔یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب کمیونٹی کونسلرز کی ایک ٹیم نے لڑکی کے گھر کا دورہ کیا۔چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے ایڈووکیٹ اور پتھنامتھیٹا کے چیئرپرسن این راجیو نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ اس پروگرام کے تحت خاندان کی بہت سی تفصیلات اکٹھی کی جاتی ہیں اور خاندانوں کو ان کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مشورہ دیا جاتا ہے۔لڑکی اپنے سکول کے دنوں میں تجربات کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھی۔
لیکن اس نے ایک سینئر اہلکار سے بات کرنے پر اصرار کیا اور کونسلر نے مجھ سے براہ راست رابطہ کیا۔اس کے بعد لڑکی اور اس کی ماں چیئرمین کے دفتر گئیں جہاں انھوں نے سب کچھ بتایا۔راجیو نے بتایا کہ لڑکی نے ہمارے ماہر نفسیات کے سامنے کھل کر بتایا کہ وہ 13 سال کی عمر سے جنسی استحصال کا سامنا کر رہی ہے۔ اس دوران اس کی ماں باہر انتظار کر رہی تھیں۔لڑکی کی ماں کو اپنے شوہر کا فون لانے کو کہا گیا اور اس طرح مجرموں کے نام سامنے آئے۔مبینہ بدسلوکی کرنے والوں نے مبینہ طور پر لڑکی سے رابطہ کرنے کے لیے اس کے والد کا فون نمبر استعمال کیا اور خاتون نے ان کے نمبروں کو فون میں محفوظ کر لیا۔ پولیس اب ملزم کا سراغ لگانے کے لیے فون کا استعمال کر رہی ہے۔
مبینہ طور پر خاتون کے اہل خانہ کو مبینہ زیادتی کے بارے میں علم نہیں تھا۔عام طور پر ایسے معاملات میں چائلڈ ویلفیئر کمیٹی مقامی پولیس سٹیشن انچارج کو مطلع کرتی ہے۔تاہم راجیو نے کہا ہم نے محسوس کیا کہ یہ ایک الگ تھلگ معاملہ ہے۔ اس لیے ہم نے پولیس سپرنٹنڈنٹ کو اطلاع دی اور انھوں نے فورا کارروائی شروع کی۔انھوں نے بتایا کہ خاتون ایک ایتھلیٹ تھی اور اس نے مختلف کھیلوں کے کیمپوں میں شرکت کی تھی، جس سے مزید بدسلوکی ہو سکتی تھی۔اس دوران خواتین کے قومی کمیشن نے اس معاملے میں ریاستی حکومت سے تین دن کے اندر رپورٹ طلب کی ہے۔ کیرالہ خواتین کمیشن نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیا ہے۔لڑکی اور اس کی ماں کو محفوظ گھر لے جایا گیا ہے۔
لڑکی کا بیان اتوار کو مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ نہیں کیا جا سکا کیونکہ وہ بیمار تھیں۔لڑکی کے الزامات نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی ہے۔ توقع ہے کہ وہ ایک خاتون پولیس افسر کے سامنے مبینہ بدسلوکی کے بارے میں تفصیلی بیان دیں گی۔خواتین کے حقوق کی تنظیم سخی کی وکیل سندھیا جناردنا پلئی نے بی بی سی ہندی کو بتایا: یہ کیس واضح طور پر ثابت کرتا ہے کہ بچوں کو جنسی ہراسانی سے بچانے کے لیے صرف قوانین ہی کافی نہیں ہیں۔ مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔سندھیا نے کہا اس کا واضح مطلب ہے کہ بچوں کی حفاظت میں سسٹم ناکام ہو چکا ہے۔ مزید یہ کہ غریب اور کمزور افراد زیادہ شکار بن رہے ہیں۔