عمران خان کا خط بھاری، چوہدری شجاعت کا ہلکا، یہ دہرا معیار ہے، عطا اللہ تارڑ


لاہور(صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ انصاف کے ترازو میں عمران خان کا خط رکھیں تو وہ بھاری ہے جبکہ چوہدری شجاعت حسین کا خط ہلکا ہے، یہ دوہرا معیار ہے، انصاف توازن کے ساتھ ہوتا ہے، اسی لیے انصاف اندھا ہوتا ہے وہ کیس دیکھتا ہے، چہرہ نہیں دیکھتا۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عطااللہ تارڑ نے کہا کہ انصاف کا دوہرا معیار سنا تھا مگر پہلی بار یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ جس کے 197 ووٹ ہیں اس کو کہیں کہ نہیں تمہارے 179 ووٹ ہیں اور جس کے 172 ووٹ ہیں اس کو کہا جا رہا ہے کہ تم 186 ووٹ لیکر آئے تو تمھارے ووٹ پورے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ انصاف کا کیا معیار ہے کہ جو 197 ووٹ ہے اس کو کہا جائے کہ تمہارے 179 ووٹ ہیں، جب مریم نواز کہتی ہیں کہ یہ جوڈیشل کو ہے اور جمہوریت پر شب خون مارا گیا ہے، ہم نے ہمیشہ عبوری وزیر اعلی، وقتی وزیر اعلی، ٹرسٹی وزیر اعلی سنا ہے مگر یہ جوڈیشل وزیر اعلی پہلی بار سنا ہے کہ ایک جوڈیشل حکم نامے سے آئین و قانون کے تحت قائم کردہ صوبائی حکومت کو گرایا جاتا ہے اور جوڈیشل حکم نامے کے تحت ایک نئی حکومت کو صوبے میں انسٹال کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انصاف کے ترازو میں عمران خان کا خط رکھیں تو وہ بھاری ہے جبکہ چوہدری شجاعت حسین کا خط ہلکا ہے، انصاف توازن کے ساتھ ہوتا ہے، اسی لیے انصاف اندھا ہوتا ہے وہ کیس دیکھتا ہے، چہرہ نہیں دیکھتا۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف پارٹی کی ہدایت نہیں ہے، عمران خان بطور پارٹی سربراہ اپنے اراکین کو کہتے ہیں کہ پرویز الہی کو وزیراعلی پنجاب کا ووٹ دینا ہے لہذا ان کی ہدایت کے خلاف ڈالے جانے والے 25 ووٹوں کو شمار نہیں کیا جاتا، دوسری طرف چوہدری شجاعت حسین بطور پارٹی سربراہ اپنے اراکین کو کہتے ہیں کہ حمزہ شہباز کو ووٹ کاسٹ کرنے ہیں تو وہ 10 ووٹ مسترد نہیں کیے جاتے ہیں اور اضافی طور پر شمار کیے جاتے ہیں، یہ دونوں چیزیں اکھٹی کیسے ہو سکتی ہیں۔ع

طا اللہ تارڑ نے کہا کہ یہ مان لیا جائے کہ پارٹی سربراہ کی ہدایت مقدم نہیں ہے اور ووٹ دینے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی یا پارلیمانی لیڈر نے کرنا ہے، تو کیا کل کے فیصلے کی روشنی میں وہ 25 اراکین جن کو ڈی سیٹ کیا گیا تھا تو میرا سوال  ہے کہ کیا ان کو بحال تصور کیا جائے گا؟انہوں نے کہا کہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ وہاں پر پارلیمانی پارٹی کی ہدایت موجود نہیں ہے، تو عمران خان نے بطور پارٹی سربراہ جو خط لکھا وہ قابل قبول ہے جبکہ چوہدری شجاعت کا خط کالعدم ہے اور وہ بھی ایک ہی الیکشن میں۔عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ بات ذہن میں ہے کہ یہ رن آف الیکشن ہے، اور وہ یہ ہوتا ہے کہ جب الیکشن میں کوئی بھی امیدوار مجوزہ 186 ووٹ لینے میں ناکام رہے تو پھر ایوان میں موجود اراکین ہوتے ہیں ان کی اکثریت پر وزیراعلی کا انتخاب ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ جیسے راولپنڈی سے راجہ صغیر رکن صوبائی اسمبلی ہیں، انہوں نے حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دیا اور عمران خان کی چھٹی کو نہ مانا تو ان کا ووٹ 25 ووٹوں میں گنتی میں سے منہا کر دیا گیا، اگلے ہی مرحلے میں جب وہ دوبارہ منتخب ہو کر آئے ہیں، انہوں نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تو ان کا ووٹ درست تصور ہوا ہے، کیا ایک شخص دو بار ایک ہی الیکشن میں ووٹ ڈال سکتا ہے، یہ ایک آئینی مسئلہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ کی تشکیل دینے کی ضد نہیں استدعا کی تھی، اس چیز کو دیکھنے کا یہ بڑا خطرناک زوایہ ہے، میں نے خود سنا ہے کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ کورٹ میں گروپنگ ہے یا دو گروپ ہیں، پہلے ہی معاشرے میں اتنی تقسیم ہے، ہم کسی بات پر یکجا نہیں ہوتے، اور لوگوں کا کہنا کہ کورٹ میں گروپنگ ہے، اس صورتحال میں زیادہ ضرورت تھی کہ فل کورٹ بینچ اس اہم ترین مسئلے پر بیٹھتا۔

عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ دوہرا معیار ہے، جس کے حوالے سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے 6 سابق صدور اور موجودہ صدر بھی بات کررہے ہیں،۔ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے کیس میں کیا ہوا تھا، فل کورٹ تھی، 8 ججوں نے فیصلہ دیا تھا کہ پارلیمان پارٹی کی نہیں پارٹی سربراہ کی ڈائریکشن کو مانا جانا ہے۔انہوں نے کہ اس بینچ میں موجود کچھ جج صاحبان اس بینچ میں موجود تھے جب نواز شریف کو پارٹی کی صدارت سے ہٹایا گیا، اس فیصلے میں خود کہہ رہے ہیں کہ پارٹی صدر کے پاس تمام تر اختیارات ہوتے ہیں، ماضی کے فیصلوں کو اگر اب غلطی قرار دیا جائے تو اس پر لوگ سوال اٹھاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آئی کہ اتنا سنگین آئینی اور قانونی نکات پر مبنی یہ کیس تھا تو فل کورٹ کیوں نہیں بٹھایا گیا۔