رضوان ہنڈل … تحریر : محمد اظہر حفیظ


چند سال پہلے لوک ورثہ میلہ میں فوٹوگرافی کرنے گیا تو حسن چیمہ اور عینی میرے میاں بیوی دوست میرے چھوٹے بہن بھائی ہیں نے کہا کھانا آپ نے ہمارے ساتھ کھانا ہے۔۔ اس کھانے پر میری پہلی ملاقات ایک نیلی آنکھوں والے جوان سے ہوئی نام تھا رضوان ہنڈل ۔ پائن آپاں وی فیصل آباد دے ہاں۔ یہ پہلی ملاقات تھی اور پھر میں رضوان ہنڈل کا پائن بن گیا۔ اب سوشل میڈیا کی بدولت رضوان سے مسلسل رابطہ رہتا۔ فیصل آباد میں کوئی کام ہو۔ پائن تہاڈا ویر ہے نا اور کام ہوجاتا۔ 2021 میں میری لائلپور میں فوٹوگرافی کی نمائش تھی۔ سارے میڈیا کی ذمہ داری رضوان کی تھی پتہ چلا کہ ہر شخص اس کا ویر ہے اتنی محبت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ نمائش لگے دو دن ہوگئے سارے چیننل آئے پر رضوان نہیں آیا مجھے پریشانی ہوئی تو فون کیا یار ہنڈل صاحب تسی چنگے ویر او آئے نئیں ۔ پائن کل انشا اللہ ۔اگلے دن رضوان اپنی فیملی کے ساتھ اگیا۔ ساتھ میری بہن اور بھابھی، اذان بیٹا بھی تھے۔ میں نے شکوہ کیا تو حسب عادت مسکراتے ہوئے کہنے لگا پائن فیملی کو بھی ساتھ لانا تھا تو میرے بھائی روکا کس نے تھا۔ کہنے لگا پائن کرونا کی وجہ سے تنخواہوں پر کٹ لگ گیا ہے۔ تنگی ہے۔ گڈی وچ پیٹرول نہیں سی۔ تے پتر دسدا تے سہی۔ میں نے شکریہ ادا کیا کہ یار تیرے سارے دوست بہت اچھے ہیں۔ اب فیصل آباد کے تمام میڈیا پرسن میرے رضوان کی وجہ سے دوست ہیں۔ میں نے کہا یار رضوان تیری اتنی دوستیاں ہیں تو کوشش کرکے پاکستان ٹیلی ویژن کیوں نہیں آجاتا ۔ ایک دن مجھے فون آتا ہے پائن کتھے او جی بیٹے پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز اور ساتھ ہی دروازہ کھلا اور رضوان دفتر کے اندر۔ واہ جی واہ آج تے موجاں ہوگیاں۔پائن آپکے حکم کی تعمیل ہوگئی ۔ مہربانی خیر تے ہے۔ پائن پی ٹی وی بطور ریسرچر جائن کرلیا ہے۔ بڑی خوشی ہوئی۔اب رضوان روزانہ میرے پاس آتا ہم گھنٹوں بیٹھے رہتے۔ اب ہمارے سارے دوست مشترکہ تھے۔ ہر وقت لوگوں کے کام کروانا ہی اسکا کام تھا۔ پائن ذرا ایم ایس الائیڈ ہسپتال کو فون کرلوں، پائن میں ذرا ڈی پی او کو فون کرلوں۔ سوشل میڈیا پر 24 گھنٹے موجود ہوتا۔ بہت خوش لباس اور خوش گفتار بھائی تھا۔ والدین کے چلے جانے کے بعد پریشان رہتا بچوں کو بھی مارگلہ ٹان اسلام آباد شفٹ کرلیا تھا ۔ میں ہنستے ہوئے کہتا پتر وڈے پرا وی ماں باپ ہوندے نے کوئی چیز چاہیدی ہووے تے دسیا کر۔ فیصل آباد پریس کلب کے الیکشن تھے میاں منور جو رضوان کا قریبی دوست تھا ہر وقت پائن دعا کرو اپنا ویر اے۔ جس دن الیکشن جیت گیا خصوصی طور پر بتانے آیا ۔ پچیس اگست کو اس نے شعر پوسٹ کیا 30…. 35 سالوں نے تھکا دیا ہمیں یہ لوگ ساٹھ سال کیسے گزار لیتے ہیںمیں نے فورا فون کیا پتر خیریت سے جی پائن۔ چار ستمبر کو میری نمائش اور کتابوں کی لانچنگ تھی سارا دن وہاں موجود رہا پائن کوئی کم دسو۔ میں نے گھر بتا دیا ہے کہ پائن کی نمائش جب لاہور اور فیصل آباد ہوگی میں نے وہاں بھی جانا ہے۔ وہ سب سے زیادہ عزت سے نام عاصمہ اقبال صاحبہ کا لیتا تھا۔ بیٹھا مجھے سناتا رہتا۔ وہ میری بہن ہے پائن۔ میرے والدین فوت ہوئے تو پائن انکی ساری فیملی ائی۔ پائن اپنے لائلپور دے نے۔ پائن تہاڈی ملاقات کروانی ہے۔ جی بیٹے ضرور۔ وہ بہت احسان مند تھا عاصمہ اقبال صاحبہ کا۔ رضوان کو دفتری معاملات میں کچھ مشکل آئی تو میں نے کہا بیٹے میں کہہ دیتا ہوں۔تو پہلی دفعہ مجھے روک دیا نہیں پائن اس بندے کے معاملات مناسب نہیں عاصمہ صاحبہ سے ہم اس کا احسان نہیں لے سکتے۔ میں اپنی بہن کی وجہ سے ہنس کر نقصان برداشت کرلوں گا پر اس کو نہیں کہنا۔ دفتر میں شنید تھی کہ کچھ لوگوں کو فارغ کررہے ہیں اس پر پریشان تھا۔ بہت دفعہ کہا اس لسٹ میں تمہارا نام نہیں ہے۔ پر پھر بھی بہت زیادہ سٹریس میں تھا کچھ دن پہلے دفتر کنٹین پر بیٹھا تھا میری طرف دھیان نہیں دیا تو میں نے حسن چیمہ کو فون کیا یار آج دل بڑا پریشان ہوگیا اے رضوان ویکھ کے ملیا نئیں۔ پائن ممکن نئیں او بہت پریشان اے۔ دیکھیا نئیں ہونا۔ایسے اچھے ریسرچر شاید ہی پاکستان ٹیلی ویژن کو نصیب ہوںکل سات اکتوبر میں دفتر بیٹھا تھا تو صدام حسین کا فون آیا انکل کیسے ہیں۔ الحمدللہ ۔ اچھا ایک خبر کی تصدیق کریں ۔ جی بیٹے۔ میاں منور نے پوسٹ لگائی ہے کہ رضوان ہنڈل ہم میں نہیں رہا۔ میرا تو ہوش ہی گم ہوگیا۔ یار مذاق اے۔ میں پتہ کرداں۔ میں نے میاں منور کو فون کیا میاں صاحب کی پوسٹ لائی اے۔ پائن او بھابھی کافون آیا تھا کہ رضوان اللہ پاس چلے گئے ۔ میں نے فورا حسن چیمہ کو فون کیا پتر کتھے او پائن بلیو ایریا یار پمز ہسپتال جا خیریت یار رضوان فوت ہوگیا ہے۔کی ہویا یار پتہ نئیں ۔ وہ ہسپتال گیا اور چیخیں مارکے رویا پائن ساڈا یار ٹر گیا اے۔ میں بھی رو دیا۔ 24 جون کو رضوان 38 سال کا ہوا تھا اور تین اپریل کو اس کی شادی کو آٹھ سال ہوئے تھے۔ اذان بیٹا ابھی بہت چھوٹا ہے سکول جانا شروع ہوگیا ہے۔ اس کو وقت کی دھوپ چھاؤں میں بہت اذانیں دینا ہوں گی۔ دکھ برداشت سے باہر ہے۔میں کہتا رہتا پتر کوئی ضرورت ہووے دسیا کر تیرا اسلام آباد وچ میں ہی وڈا واں تے اگلے دن سوشل میڈیا تے سٹیٹس سیتوں وی میری ، اکھ نہیں پڑھدا !تینوں وی …. دکھ بول کے دساں ؟ہائے او میریا ربا میرے کولوں اسدی اکھ نہ پڑھ ہوئی تے او ٹر گیا۔ اسکا شوق اچھا لباس پہننا اور چائے پینا ہی تھا اور کچھ بھی تو نہیں۔ ساری دنیا کا اس جو غم تھا سب کے اسنے کام کرنے تھے۔ گھر کی طرف دھیان نہیں دے سکا پائن او گھر والی کے پتھری ہے آپاں فیصل آباد تو پروسیجر کروانا اے پتر کسی شے دی ضرورت۔ بس دعا کردئیو۔ پھر فون آیا الحمد للہ پتھری نکل گئی ہے ۔پتر رضوان رب دے کم وچ کی دخل اے پر تینوں قبر وچ اتارنا دا کدی سوچیا نہیں سی۔ جا میرے ویر رب دے حوالے ۔اللہ تعالی جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین اللہ تعالی اس کی کامل مغفرت فرمائے آمین اس کی فیملی کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین دعاؤں کی درخواست ہے ۔