جب بھی کوئی سائنس دان نظریہ پیش کرتا ہے تو اس نظریے کا عملی اطلاق یعنی اسکو مادی شکل میں ڈھالنے کے لیے ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے سائنسی نظریات کے نئے نئے تناظرات کو عملی صورت میں ڈھالنے کے لیے ٹیکنالوجی کی دستیابی اور اس کا مسلسل ارتقاء ناگزیر ہے مثلاً میکس ویل نے توانائی کی مختلف اقسام ____حرارت، روشنی، الٹرا وائلٹ شعاؤں (ایکس ریز، گیما ریز) کے متعلق نظریہ پیش کیا _اس نظریے کو ہرٹز نے عملی شکل دینے ہوئے مصنوعی ریڈیائی لہروں کو تیار کر کے ریڈیو، ٹی وی اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا رستہ ہموار کیا _اسی طرح آئن سٹائن نے مادے اور توانائی کی باہمی منتقلی کا نظریہ پیش کیا اور ریاضیاتی مساوات E=MC² کی شکل دے کر فزکس کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا سائس دانوں نے اس نظریے کی بنیاد پر جوہری توانائی کی تخلیق کی اور ایٹمی دھماکوں نے آئن سٹائن کے نظریے کو تصدیقی سند سے نواز دیا سائنسی نظریات کے پس منظر میں علمی دریافتوں کےتحقیقاتی سائنسی طریقہ ہائے کار (Epestomolgy) کام کر رہی ہوتی ہے انسان علم، مشاہدے اور منطق سے سیکھتا ہے مشاہدے، منطق اور سائنسی تجربات میں جہتیں پیدا کیے بغیر نئ دریافتیں کرنا ناممکن ہے اور اس کے بغیر تحقیقاتی علم کی نشوونما نہیں کی جا سکتی ہے ریاضیاتی سائنس منطق کی سب سے اعلی قسم ہے آئن سٹائن نے کائنات میں حرکت اور سکون کی حالتوں کا
گہرا مشاہدہ کر کے آضافیت کا حیرت انگیز نظریہ (Theory of Relativety) پیش کی جس نے طییعات اور فلکیات کی دنیا میں نت نئی جہتوں کو متعارف کرایا آئن سٹائن کی علمی اور منطقی مشاہدے نے دنیا کو حتمی طور پر قائل کیا کہ زمین بظاہر ساکن دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت میں یہ اپنے مدار میں گردش کر رہی ہے آئن سٹائن نے کائنات میں ٹا ئم اور سپیس کے متعلق بھی حیرت انگیز تھیوریز پیش کی ہیں اور بتایا ہے کہ کائنات میں پائے جانے والے ستاروں اور سیاروں کے ٹائم زونز ہماری دنیا سے مختلف ہیں جیسے ایک سولہ سالہ نوجوان کائنات میں کسی خاص سیارے کے زون میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ وہاں کے وقت کے مطابق ایک سال بعد واپس زمین پر آئے گا تو وہ تو عمر کے لحاظ سے 17 برس کا ہوگا مگر اس کے زمینی ہم عمر نوجوان ساٹھ سال کی عمر پر پہنچ چکے ہوں گے سائنسی اصطلاحات کا مفہوم نئ نئ دریافتوں کی نسبت سے تبدیل ہوتا رہتا ہے نظریات کے ارتقاء اور استدلال کا ٹیکنالوجی کے ساتھ گہرا تعلق ہے جیمز ویب طاقتور دوربین نے ہمیں کائنات کی اربوں کھربوں کہکشاؤں میں موجود ستاروں اور سیاروں اربوں نوری سال کے فاصلوں پر موجود ہونے کے باوجود ان کی تصویروں پر ہمیں رسائی دے کر کائنات کے متعلق ہماری فرسودہ معلومات پر لکیر پھیر دی ہے سائنسی نظریات کبھی جامد نہیں ہوتے ہیں کبھی زمین ساکن سمجھی جاتی تھی گلیلیو نے جب اس کی حرکت کی بات کی تو چرچ سیخ پا ہو گیا اور اسے خدائی معاملات میں جسارت قرار دے کر عدالت سے سزا دلوانے کی کوشش کی گئی لیکن آج ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے سے ھبل اور جیمز ویب جیسی طاقت ور دور بینوں کو تو چھوڑیں عام ٹیلی سکوپس سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ زمین اور دوسرے سیارے اپنی کہکشاں میں سورج کے گرد مسلسل گردش میں ہیں اسی طرح اگر کوئی شخص سمندری مخلوق کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک جال سمندر کی گہرائی میں ڈالتا ہے تو اگر اس جال کے خانے بڑے ہیں تو بہت سی مخلوق اس کے مشاہدے میں نہیں آئے گی لیکن آج جدید ویڈیو گرافی نے ہمیں سمندر کی طے تک اربوں قسم کی سمندری مخلوق کا براہ راست نظارہ اسی طرح سے کرا دیا ہے جیسے فلکیاتی دوربینوں نے کائنات میں اربوں سیاروں اور ستاروں کا کرایا ہے اس حقیقت کو بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی سے کائنات کے متعلق تصوراتی علم دیومالائی قصے کہانیوں سے نکل کر حقائق کی مادی دنیا میں داخل ہو چکا ہے
منطقی علوم سے مادے اور توانائی کا تعلق معلوم ہوا _ان کے ایکشن اور ری ایکشن کے اثرات پتہ چلے ہیں ٹیکنالوجی نے انسان کو تیز ترین ائیر کرافٹس اور سپیس شٹلز تک پہنچا دیا ہے خلا اور دوسرے سیاروں تک سفر کرنا ممکن ہو چکا ہے اب سائنس دان اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ مادہ اپنی ضد اینٹی مادہ کے تصادم سے قائم دائم ہے جسکی وجہ سے کاہنات مسلسل پھیلتی چلی جا رہی ہے اور ارتقاء پذیر ہے اضافت کے نظریے نے بتایا کہ ہر شے کی حقیقت گردوپیش کے حالات سے مشروط ہے جب اردگرد کے حالات بدل جائیں، نئ ایجادات ہوں جائیں، نئی نئی سائنسی حقیقتوں سے پردہ آٹھنا شروع ہو جائے تو ٹیکنالوجی کی دریافتیں انسان کی خواہشات اور سوچ و فکر کو تبدیل کر دیتی ہیں ٹیکنالوجی کی ترقی انسان کے ذہنی تناظر کو نئے زاویوں سے روشناس کراتی ہے جس کی وجہ سے سماجی، معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی اقدار بھی بدلنے لگتی ہیں جو معاشرے اور افراد جدید سائنسی حقیقتوں اور اس سے وابستہ اچھائیوں اور برائیوں کو تسلیم کر کے نظریاتی سائنس اور عملی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کر لیتے ہیں وہ ترقی کی منازل پر گامزن رہتے ہیں آج کی دنیا علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے سے دو حصوں میں تقسیم ہے ایک طرف سائنسی اور منطقی سوچ و فکر رکھنے والے ترقی یافتہ ممالک ہیں جو ضرورت کی ہر چیز کے لیے سائنس اور جدید ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہیں اور دوسری طرف پسماندہ دنیا ہے جو سائنسی تحقیق ترقی کو پرکاہ اہمیت دیتی ہے اور ترقی یافتہ ممالک کی جدید ایجادات کی فروخت کی منڈی بنی ہوئی ہیں اب ان ممالک کو اپنے تجارتی خسارے پر قابو پانے کے لیے
ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک میں سائنسی سوچ اور فکر کو تعلیمی میدان میں اہمیت دیں ٹیکنالوجی کو درآمد کرنے کی بجائے خود اپنے حالات اور آبادی کے تناسب کو دیکھ کر لوکل ٹیکنالوجی کو فروغ دیں پاکستان جیسے ملک میں یورپ سے خود کار جدید مشینوں کو درآمد کرنے سے ایک تو زر مبادلہ بے تحاشا خرچ ہوتا ہے اور دوسرا بیروزگاری کو فروغ ملتا ہے ہمارے ہاں وہی ٹیکنالوجی بہتر ہے جو لیبر کو زیادہ سے زیادہ کھپائے نہ کہ ان کے کردار کو ختم کر دے جب پاکستان جیسے ممالک خام مل برآمد کر کے اشیا ئے سرمایہ اور ٹیکنالوجی درآمد کرتے ہیں تو پھر تجارتی خسارے کا عفریت جنم لیتا ہے جسکا اثر مالیاتی اور توازن ادائیگیوں کے عدم توازن کی صورت میں پیدا ہوتا ہے معاشی عدم توازن کی ان صورتوں کی وجہ سے پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے معاشی بحرانوں کا شکار ہے ہمارے ہاں اکثر صنعتی ادارے خصوصاً کارساز کمپنیاں باہر سے پرزے درآمد کر کے گاڑیاں اسمبل کرتی ہیں اس طریقے سے ٹیکنالوجی کا علم میں اضافہ تو ہوتا ہے لیکن خود انحصاری کی منزل نہیں حاصل ہوتی ہے اور گزشتہ دو سالوں میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے گاڑیوں سمیت ہر وہ شے جسکا خام مال پاکستان میں درآمد ہوتا ہے ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے لہذا جب تک پاکستان چین، جنوبی کوریا، تائیوان، ویت نام کی طرح ٹیکنالوجی کو مقامی سطح پر قابل عمل نہیں بنائے گا تو وہ کبھی بھی اپنے پاؤں پر اقتصادی لحاظ سے کھڑا نہیں ہو پائے گا تاہم ٹیکنالوجی کو سستا اور مؤثر ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے مداخلز یعنی لیبر اور سرمایہ، بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھ کر ہی ایسی اشیاء تیار کی جا سکتی ہیں جو معیار ی ہوں اور جن کی ملکی سطح سے ہٹ کر عالمی سطح پر بھی طلب ہو آج دنیا کا ہر ملک اپنی پیداواری برتری قائم کرنے کے لیے سائنسی تحقیق پر بے تحاشا خرچ کر رہا ہے اور یہ ممالک ترقی پذیر ممالک کو اپنی پرانی ٹیکنالوجی اس وقت منتقل کرتے ہیں جب وہ زیادہ بہتر اور سستی ٹیکنالوجی ایجاد کر لیتے ہیں اس لیے جب پاکستان جیسے ممالک پرانی درآمد شدہ ٹیکنالوجی سے اشیاء و خدمات تیار کرتے ہیں تو وہ عالمی مارکیٹ میں مسابقت نہیں کر پاتے ہیں چین اور روس نے مغربی دنیا سے ٹیکنالوجی کو چرا کر اپنے ہاں نہ صرف صنعت سازی کی بلکہ جنگی ہتھیار بھی بنا ڈالے روس نے کے جی بی کے ذریعے امریکہ سے ایٹم اور ہائیڈروجن بمبوں کے راز چرائے کسی بھی ملک کی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کی پیداوار کو برآمدات کے لیے وسیع منڈی دستیاب ہو یہی وجہ ہے کہ چین اور جاپان، امریکہ کوریا اور جرمنی جیسے ممالک کی عالمی منڈیوں میں اجارہ داری ہے یہ ممالک زیادہ برآمد کرتے ہیں اور کم درآمد جسکی وجہ سے ان کا تجارتی توازن مثبت رہتا ہے اور وہ اپنے منافع کا بڑا حصہ ریسرچ ورک اور سائنسی تحقیقاتی علم پر خرچ کر کے نئی سے نئی ٹیکنالوجی کو اپنی دسترس میں رکھتے ہیں اور دنیا پر چھا ئے ہوئے ہیں پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو اسے بھی یہی راستہ اپنانا ہو گا جس کی وجہ سے چین، کوریا اور ویت نام نے غربت سے خوشحالی کی منزل حاصل کی ہے
Load/Hide Comments