ملک میں موجود سیاسی گندچند مہہینوں سے نہیں سالہا سال سے جاری ہے۔ انتہا پر اس وقت پہنچا جب وردی والوں نے ایک بڑی پارٹی کے سربراہ کو اقتدار سے نکالنے کے لئے پانامہ کا اسٹیج سجایا۔ججوں نے داشتہ کا کردار ادا کیا اور ایک سیاسی راہنما پر جب پانامہ کا جرم ثابت نہ ہوسکا تو اقامہ آگیا اور انھیں ناکردہ جرم پر نااہل کردیاگیا ۔
سارے ریاستی وسائل جھونک دینے کے باوجود ”لاڈلے“ کو وہ مینڈیٹ نہ مل سکا جو مطلوب تھا ۔
بظاہر ترین کے جہاز پھیری لگاتے رہے مگر درپردہ وہ کردار مصروف عمل رہے جنھیں خفیہ کانام دیا جاتا ہے۔ ایسے خفیہ والے جنھیں اب رکشا ڈرائیور اور سبزی فروش بھی جانتے ہیں۔ دوسری پارٹیوں کے لوٹوں کے گلے میں انصافی پٹے ڈالے گئے۔
گندے کھیل کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والے صاحب کو اپنے سوا کوئی صاف کردار کا فرد نظر نہیں آتا۔جوآئے روز فاطمہ بنت محمدصلعم کے ہاتھ کٹنے کی مثالیں دیتے ہیں مگر پونے چار سالہ اقتدار میں ان کے ارد گرد لوٹے اور گھاٹ گھاٹ کے لٹیرے جمع رہے ۔ ہاتھ تو دور کسی چور کی انگلی تک نہ کٹی۔
سول ملٹری تعلقات کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے رہے۔ سیاست کے رموز سے ناواقف کو معلوم نہ تھا ؟ کہ کوئی ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے۔ ایوب خان کے بہت پیارے۔
انھیں بعد کے آمر ضیا نے پھانسی چڑھا دیا۔
نوازشریف کے لئے میری عمر لگ جائے کی دعا کس آمر نے کی تھی۔؟ اُن کے ساتھ دوسرے آمر مشرف، راحیل اور باجوہ نے کیا کیا۔؟
حادثات و سانحات کا سامنا کرنے والی بے نظیر بھٹو کو نواز شریف سے دور کرنے کے لئے NRO کے جھانسے میں پھنسایا گیا اور کچھ عرصہ بعد انھیں موت
کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
مسٹر کلئین غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ “یہ نائی اُن کا سر نہ مونڈھےگا۔”
سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ عمران کیساتھ کوئی انوکھا کھیل نہیں کھیلا گیا۔سانپ اور سیڑھی کا کھیل سات دہائیوں سے جاری ہے۔
اور ایسا صرف سیاسی محاز پر نہیں بلکہ عسکری محاز پر ہزاروں جانیں نچھاور کرکے پاکستان کو متحد رکھنے کی کوشش کرنے والے مجاہدین کیساتھ سیاست سے بدتر کیا گیا ۔
ایسے حالات میں ہی 1971 میں ڈھاکہ سے آنے والے وفد سے ملاقات میں سید مودودی رحمتہ اللہ نے کہا تھا کہ مسلم افواج دنیا بھر میں پہلا وار اپنے دشمنوں نہیں ، محسنین پر کرتی ہیں۔
یہ قِصہ درد کسی ایک کالم یا سماجی رابطے کی وال پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔
ملکی معیشت کی تباہی اور سیاسی گھٹن کے ماحول میں تفنن طبع کے لئے گجرات یونیورسٹی کی ایک پوسٹ دیکھ کر بعض احباب غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ شاید ہم عمران کیخلاف ، زرداری کی چمک کا شکار یا چوہدری شجاعت کی بیت کر بیٹھے۔
ہر گز نہیں۔
البتہ وہ لوگ جن کو عمران خان کا اصل چہرہ نظر نہیں آرہا،سے گزارش کرتا چلوں کہ صاحبو ! یہ موصوف کہاں سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ آگے جو ایک بیان ان کے خلاف دیتے اور دس قدم و اقدامات خاکی والوں کی خوشنودی کے لئے اٹھاتے ہیں۔ جنھوں نے ایک شہزادے اور پلے بوائے کی زندگی گزاری ہے ۔ اسے کیا معلوم غریب کا چولہا جلتا بھی ہے کہ نہیں۔
جو گالیاں اُن کو دیتا جو اُس کی طرح ہی کے مہرے ہیں۔
ایاز امیر بلند ہمت فرد ہے جس نے اس کے منہ پر بھری مجلس میں اُس کے بلنڈرز ہی نہیں گنوائے بلکہ کہا ہے کہ اصل کرداروں کی بات کرو۔ چوہدریوں کے وسیع دستر خوان پر کبھی گئے اور نہ ان کے تنخواہ دار وان میں شامل ہوئے۔ مگر وہ چور ہیں ، ڈاکو یا قاتل انھیں جو بھی کہا جاتا ہے ان کی کچھ سیاسی روایات ہیں ۔جو لوگ کل سے شجاعت کو مطعون کررہے ہیں وہ محض تماشائی ہیں یا ان کا حافظہ کمزور ہے۔؟
بھئی ہر دوطرف سے جو سیاسی گند ہورہا تھا- لاڈلے نے آئین پامال کردیا تھا ۔ مارچ کے آخری اور اپریل کے پہلے ہفتہ میں چوہدریوں نے APDM والوں سے ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے چند گھنٹے بعد نابلد بیٹے مؤنس کی مان کر پرویز الہی نے شجاعت کی عزت خاک میں نہیں ملائی تھی۔؟؟
گزشتہ کل مکافات عمل کے دو مظاہرے دیکھے گئے۔
پرویز الہی نے زرداری (ضامن) کو جو بے عزت کیا تھا، انھوں نے شاطرانہ چال چل کر چوہدری شجاعت کے زریعے پرویز و عمران کو اُن کی اصل اوقات دکھا دی ہے اور ججوں کے ذریعے عمران خان نے جو نیا آئین لکھوایا تھا اُس پر بلخ مزاری کے پوتے دوست محمد مزاری نے عمل کر دکھایا۔
خان صاحب اکثر دوسروں کے لئے کھودے گئے گڑھے میں بندہ خود ہی گرتا ہے، یہ تاریخ کا سبق ہے جو ہم کم کم ہی سمجھتے ہیں۔
گندہ کھیل ختم نہیں ہوا۔بندیال و جسٹس اعجازالحسن موجود ہیں،دیکھیں وہ اپنے ممدوح کو نئی درخواست پر کیسے فائدہ پہنچاتے ہیں۔؟
جنھیں نیوٹرل کہا جارہا ہے، دیوانو خاطر جمع رکھو۔۔۔
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
اور
نہ ہم بدلے ،نہ تُم بدلے، نہ دِل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبارِ ِ انقلاب ِ آسماں کر لوں
Load/Hide Comments