یاد اس کی خوب نہیں…۔۔۔تحریر کشور ناہید


لاہور پہنچے تو پتہ چلا کہ کوئی ہوٹل، کوئی گیسٹ ہاؤس خالی نہیں۔ سب کے سب 25جولائی تک کیلئے بک ہیں۔ خیر لاہور میرا پرانا گھر ہے۔ کتنی ہی مدت بعد، لاہور ٹی وی سینٹر پہنچے تو یاد آیا یہ سب سے قدیم اسٹیشن ہے۔ اپنی حالت سے بھی پہچانا جا رہا تھا۔ کچھ بوڑھے چپڑاسی اور چند گنے چنے ناآشنا چہروں سے ملاقات میں منہ میں آیا بد ذائقہ غائب اور دیرینہ محبتیں جو اب بہت سی تہہ خاک چلی گئی ہیں مگر لگتا تھا کہ کہیں میڈم نورجہاں کھڑی ہیں،خواجہ نجم اور فرخ بشیر سے باتیں کر رہی ہیں۔ کبھی منو بھائی اور بانو قدسیہ، بیٹھےصہبائی سے اسکرپٹ پر بات کررہے ہیں۔ یہ یادیں یکدم دھندلا گئیں اور جب میں نے اسٹوڈیو نمبر1میں بوسیدہ پردوں کو ہاتھ لگایا تو ذہن میں کوندا لپکا اور حسینہ معین نے میرے کان میں کہا۔ وہ اوردن تھے جب منیزہ ہاشمی سربراہ ہونے کے باوجود خواتین کے باتھ رومز تک خود کھڑے ہوکر صاف کروایا کرتی تھیں۔ ابھی میں اسی یاد نگر میں گھوم رہی تھی۔ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری جانب ہمارے ہردلعزیز دوست مصطفیٰ قریشی کی بھرائی ہوئی آواز تھی۔ ’’تمہاری دوست روبینہ قریشی چلی گئی۔ ‘‘میں چپ ،پھر یاد نگر میں چلی گئی۔ حمایت علی شاعر نے ہماری ملاقات روبینہ سے کروائی۔ یہ کالج میں پڑھتی تھی اور ریڈیو کے استاد آغا سلیم بڑے پیار سے بتا رہے تھے کہ یہ شاہ لطیف کا کلام بہت خوبصورت لحن کے ساتھ گاتی ہیں۔ مجھ سے ملاقات کا مطلب تھا کہ سارے ادبی گھرانوں سے ملاقات۔ روبینہ ،مصطفیٰ قریشی سے ریڈیو ہی میں ملیں۔ اور یہ دو پڑھے لکھے لوگ ایک ہوگئے۔ یہ لاہور آئے تو مصطفی قریشی نے پنجابی کو انوکھا لہجہ دیا۔ جو عوام میں بہت پسند کیا گیا۔ روبینہ بہت ذہین تھی۔ اس نے قریشی کو آگے بڑھنے کا موقع دیا اور خود کو گھر میں ہی ہارمونیم پہ ریاض کرنے تک محدود کرلیا۔ فلم کے منظر نامےپرقریشی دن رات مصروف رہا۔ روبینہ دو بچوں کو خودپڑھاتی۔ ہم ادیبوں سے ملاقات کرتی اور گوپی چند نارنگ یا عینی آپا کے آنے پر ماحول کو گرم دیکھ کر روبینہ، اپنا ہارمونیم کھولتی اور کبھی فیض، کبھی فراز اور کبھی اساتذہ کی غزلیں سناکر سب کے چہروں کو ارغوانی کردیتی۔ روبینہ کے ساتھ اکثر و بیشتر اقبال بانو بھی ادبی نشستوں میں شریک ہوتیں اور بانو مجھے ڈانٹ کر کہتی۔ تو کم از کم مجھے کوئی میز ہی لادے، یہ کہہ کر پاس پڑی میز کو بجاتے ہوئے کبھی غالب اور کبھی عزیز حامد مدنی کی مشکل غزلیں، ہر مصرع کی معنویت کو سروں میں ڈھالتی۔ صوفی تبسم، فیض اور استاد احسان دانش تک کو جھومنے کا لطف ارزاں کرتیں۔ اقبال بانو کے گھٹنوں نے جواب دیا اور روبینہ کو کینسر نے دبوچ لیا۔ میڈم نور جہاں نے کراچی میں مجھے اسپتال میں پیار کرتے ہوئے رخصت چاہی اور بولیں ’’سُر میں گانے والوں کو تھپکی دیتی رہنا‘‘۔

میں لالہ موسیٰ جاتی تھی۔ روشن آراء بیگم سے ملنے تو کبھی ریڈیو کے لائیو پروگرام میں تین منٹ کا دادرہ سنتی۔ وہ کم گو تھیں مگر میں تو باتیں کرتی جاتی۔ بھڑکتے رنگوں کی بنارسی ساڑھیاں اور بہت سا زیور وہ پہنتیں، مجھ جیسی درویش مزاج خاتون کو بالکل میڈم کی چمکتی ساڑھیوں کی طرح، ہر حال میں ان کی آواز کو حذب کرتے ہوئے دعا کرتی، یا خدا، ان کی آواز کو سلامت رکھنا۔ لاہور ٹی وی سینٹر پر ان سب کی تصویریں لائونج میں لگی دیکھ کر امانت علی خان سےلےکر پٹھانے خان، دریا کے کنا رے بیٹھے…مینڈا عشق وی توں‘‘ یاد آگئے ۔

ادب کی دہلیز سے تو میں کبھی پلٹی نہیں۔ اس لئے جب لاہور اسٹوڈیو میں شیبا کا فون آیا اور سن کر چپ ہوگئی ’’سمیع آہوجا کا انتقال ہوگیا تھا‘‘۔ فالج نے اس کے قدم پکڑ لئے، مگر جب تک ہوسکا، وہ کہانی لکھتا رہا۔ آہوجا بنیادی طور پر انجینئر تھا مگر ادب میں متعارف اس کو افتخار جالب نے کروایا تھا۔ ٹی ہاؤس کی نشستیں، بحثیں، لڑائیاں، شکوے، سب کچھ ایک چائے کے کپ میں سمٹ جاتا پھر انیس ناگی کی اچانک لیکچر دیتے ہوئے موت نے مجھے سمجھانا شروع کیا کہ تمہارا قبیلہ چھوڑ کر خدا کے پاس یہ لوگ فریاد لے کر جارہے ہیں کہ جیسے دنیا کے رشتے، سرحدوں سے نکل کر ایک دوسرے سے مکالمہ کر رہے ہیں۔ ہمارے ادیبوں کو تو کوئی سرکار اہمیت ہی نہیں دیتی ۔ دیکھو تو ہمسائے میں امرتا پریتم سے جاوید اختر کو سینیٹ کا ممبر اُن کی خدمات کے اعتراف میں نامزد کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں احمد فراز کا سامان اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے کہ وہ ریٹائر ہوچکا تھا اور سرکاری گھر پر کسی بڑے افسر کی نظر تھی۔ سرکار کی بدنیتی اور پابندیوں نے احمد فراز، فہمیدہ ریاض، فارغ بخاری، شہرت بخاری کو ملک چھوڑنے پہ مجبور کیا۔ پھر میرے ضمیر نے ملامت کی اور ٹوکا اب کونسے سر خاب کے پرادیبوں کو لگا دیئے گئے ہیں۔ اب تو جو ادارے، موسیقی، رقص اور ادب کے فروغ کے لئے قائم کئے تھے، وہاں اب وہ لوگ براجمان ہیں کہ وہ کتاب تو کیا، فائلوں پر لکھے نوٹ بھی نہیں پڑھتے۔ البتہ نوٹ پکڑنے والوں میں بڑے باریش بزرگ بھی شامل ہیں اور یہ بپتا تو پاکستان بنتے ہی جائیدادوں کو ہڑپ کرنے سے شروع ہوئی۔ منٹو کو ایک برف کا کارخانہ الاٹ ہوا تھا۔ اس نے واپس کر دیا کہ میں تو افسانہ نگار ہوں، میں اس کا کیا کروں گا۔ ساحر لدھیانوی پاکستان آئے۔ ابنِ انشا کے پاس لاہور میں ٹھہرے۔ ماحول جی کو نہیں لگا۔ ممبئی واپس چلے گئے۔استاد بڑے غلام علی خان بھی موسیقی کی بے قدری دیکھ کر انڈیا چلے گئے۔ جو ش صاحب دو دفعہ انڈیا واپس گئے، پھر پاکستان میں ذلتوں کو دیکھتے ہوئے زمین اوڑھ کے سو رہے ہیں۔ عینی آپا نے ’’گردشِ رنگ چمن ‘‘پاکستان میں شائع کروایا۔ رجعت پسند پریس نے ان کے خلاف اتنے نازیبا حاشیئے بنائے کہ وہ واپس انڈیا چلی گئیں۔ وہاں انہیں بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔ میڈم آزوری جو انگلینڈ میں پانی کے جہاز سے جا کر پرفارم کرتی اور اخباروں میں ان کی تصویریں چھپتی رہیں، وہ پاکستان میں ایک کمرے کا کرایہ مانگنے پی این سی اے روتی ہوئی آئی تھیں۔ ابھی بہت کچھ ہے میں چپ ہو جاتی ہوں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ