اسلام کی شان و شوکت کا آخری تاجدار۔۔۔تحریر الطاف حسن قریشی


حضرت شاہ وَلی اللّٰہؒ محدث دہلوی اورنگزیب عالمگیر کی وفات سے چار سال پہلے پیدا ہوئے جو برِصغیر میں اسلام کی قوت اور عظمت کی آخری نشانی تھے۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے اُن کے عظیم الشان قائدانہ کردار کا اپنی تصنیف ’’دکن کی سیاسی تاریخ‘‘ میں بڑے ایمان افروز پیرائے میں بیان کیا ہے کہ سترہویں صدی عیسوی کا زمانہ ہندوستان میں ایک ایسا زمانہ تھا جس میں اُس ملک کے باشندے نصف النہار پر پہنچ کر زوال کی طرف سرعت کے ساتھ مائل ہو چکے تھے۔ امن و امان، خوش حالی، اسبابِ عیش و عشرت کی افراط اور بےخوفی شاہ جہاں کے عہد میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں شاندار لباس، عالیشان عمارتیں، نفیس سواریاں اور دُوسرے تمام عیاشی کے لوازم بڑھ رہے تھے مگر بہادر سپاہی، لائق سپہ سالار، بیدار مغز مدبر اور قابل منتظم گھٹتے چلے جا رہے تھے۔

اِس کمی کے اثرات کو غالب ہونے سے جس چیز نے روک رکھا تھا وہ عالمگیر جیسے زبردست حکمراں کی ذات تھی۔ اُس کے سخت سے سخت مخالف بھی اِس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہ سادگی، جفاکشی، سپاہیانہ مستعدی، اَن تھک محنت، امورِ مملکت کی شخصی نگرانی، معاملے کو سمجھنے کی صلاحیت اور آدمیوں کو پرکھنے اور اُن سے کام لینے کی قابلیت میں اپنی نظیر نہیں رکھتا تھا۔ اُس کی گہری نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ اُس کا ملک قحط الرجال میں مبتلا ہو چکا ہےچنانچہ اُس نے ہندوستان کے اندر اَور باہر سے جو بہترین افراد مل سکے تھے، اُنہیں چھانٹ چھانٹ کر فراہم کیا اور اُن کی قابلیت کے مطابق اُن کی تربیت کی۔ اُن سے اعلیٰ ذمےداری کے کام لیے، ہر شخص کو اُس کام پر لگایا جس کا وہ اَہل تھا اور کسی کو اُس منصب اور مرتبے تک نہ بڑھنے دیا گیا جس کے اٹھانے کی اُس میں صلاحیت نہیں تھی۔ پھر اُس نے اپنے نظامِ حکومت کو جڑ سے لے کر چوٹی تک اپنی شدید نگرانی میں رکھا۔ صوبےداروں اور سپہ سالاروں سے لے کر حکومت کا کوئی عامل تک بادشاہ کی شخصی نگرانی سے آزاد نہیں تھا۔ اِسی طرح فوج اور اُمرائے فوج کو اُس نے مسلسل چالیس برس تک لڑائیوں میں مشغول رکھا کہ عیش پسندی کا نشہ ہرن ہو گیا۔

یورپی مؤرخین نے مغل شہنشاہ شاہ جہاں کو دنیا کا طاقت ور ترین حکمران اور ہندوستان کو سب سے زیادہ خوش حال ملک قرار دِیا تھا۔ اِسی بنیاد پر پرتگیزی، ولندیزی، فرانسیسی اور برطانوی حکمراں ہندوستان کے ساتھ تجارتی روابط قائم کرنے اور اَپنی تجارتی کمپنیوں کے دفاتر کھولنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے۔ مغلیہ دورِ اِقتدار میں تخت نشینی کا کوئی اصول طے نہیں تھا، اِس لیے ہر تیموری شہزادہ اَپنے آپ کو تخت کا حق دار سمجھتا رہتا تھا۔ شاہ جہاں اپنے بیٹے عالمگیر کو حد سے بڑھی ہوئی دینداری کے باعث پسند نہیں کرتا تھا، اِس لیے اُسے دکن کا گورنر بنا کر دہلی سے بہت دور بھیج دیا اور اَپنے بیٹے دارالشکوہ کو سلطنت کے مرکز دہلی میں اپنے ساتھ رکھ لیا جبکہ شجاع کو بنگال اور مراد کو گجرات کا حاکم بنا دیا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ دارالشکوہ نے سلطنت کے معاملات اِس انداز میں چلانے شروع کر دیے جیسے شاہ جہاں بسترِ مرگ پر ہو اَور اِقتدار اُسے سونپ دیا گیا ہو جو اَپنے مزاج میں آزادمنش واقع ہوا تھا۔ اِس پر عالمگیر اور مراد حصولِ تخت کی دوڑ میں نکلے۔ شجاع بھی نکلا۔ دارا کے بیٹے سلمان شکوہ نے اُسے شکست دی۔ اورنگزیب عالمگیر اور مراد مل کر آگرہ کی طرف بڑھے۔ ساہوگڑھ کے میدان میں دارا کو شکست ہوئی۔ فتح کی خوشی میں بہادر مراد نے شراب کے دریا بہا دیے۔ جب مراد بدمستی کی حالت میں تھا تو اورنگزیب نےاسے گرفتار کرکے موت سے ہمکنار کر دیا۔ اِس طرح اورنگزیب کیلئے راستہ صاف ہو گیا جس کی شخصیت پر شیخ احمد سرہندیؒ کی اصلاحات کے اثرات بہت گہرے تھے۔ پروفیسر ہری رام شرما نے اورنگزیب کے اسلوبِ حکومت کے بارے میں ایک طویل مضمون لکھا جو اُس عہد کے اخبارات سے ترتیب دیا گیا تھا۔

اُس مضمون سے اورنگزیب کی شخصیت کے جو پہلو اُجاگر ہوتے ہیں، اُن کے مطابق وہ اَپنے معمولات میں کبھی تساہل نہیں برتتا تھا۔ مظلومین کی فریاد خود سنتا اور معاملات کی پوری تحقیقات کے لیے سفیر بھیجتا اور مفصل رپورٹ ملنے پر مجرم کو اسلامی شریعت کے مطابق سزا دِی جاتی۔ وہ کسی سرکاری عہدےدار کی طرف سے شہریوں کو پریشانی میں مبتلا کر دینے اور بےضابطگی کا مرتکب ہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ 15؍اپریل 1697 کو ایک مقامی فوجدار کے خلاف شکایت موصول ہوئی کہ اُس کے پاس مختلف مہریں ہیں جن سے وہ جعل سازی کرتا ہے۔ اُسے گرفتار کر کے دربار میں بلایا گیا اور قیدِ سخت کی سزا دی گئی۔ 21؍اپریل 1694 کو ایک مغل سودخور نے قرض کی وصولی میں اپنے مقروض کی جان لے لی۔ اُس کے بدلے میں اُس کے نوکروں نے عدالتی فیصلے کے مطابق اُسے مار ڈالا۔ 14؍اپریل 1705 کو ایک ڈکیتی کی خبر آئی۔ فوجدار کو حکم ہوا کہ مقدمے کی تحقیقات کر کے مجرموں کو قانونِ شریعت کے مطابق سزائیں دی جائیں۔ اُس مضمون میں مثالیں دے کر بتایا گیا ہے کہ اورنگزیب اخبارات کی اطلاعات پر فوری طور پر کارروائی کرتا۔ اُس کے عہد میں قاضی اپنے فیصلوں میں مکمل آزاد تھے اور اِنصاف کی فراہمی میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرتے تھے۔ بیت المال شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے تھا اور اُمرا اَور وُزرا اُسے اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اِس اندازِ جہانبانی نے تمام یورپی ممالک پر ایک ہیبت طاری کر دی تھی۔ جہانگیر اور اُس سے پہلے پرتگیزی اور برطانوی تجارتی کمپنیوں نے ہندوستان میں اپنے تجارتی مراکز اور قلعے قائم کر رکھے تھے اور وہ لوگ اَیک دوسرے پر حاوی ہونے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔ اورنگ زیب نے اُن سرکش طاقتوں کی اتنی درگت بنائی کہ اُنہیں بار بارناک رَگڑنا پڑی۔ اورنگزیب نے اسلامی ریاست کی روح بحال کر دی تھی اور حکومت کو فرقہ بندیوں سے ماورا کر دیا تھا۔ اِس لیے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے اُنہیں’’تجدید احیائے دین‘‘ میں ’’خادمِ شریعت‘‘ کا خطاب عطا کیا ہے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ