مسلم لیگ (نون)کے سرکردہ رہنماؤں سے دست بستہ فریاد ہے کہ خود کو مزید خوش گمانی میں مبتلا نہ رکھیں۔ اتوار کے روز پنجاب اسمبلی کی طویل ڈرامائی کش مکش کے بعد خالی ہوئی نشستوں پر جو انتخاب ہوئے ہیں وہ روایت سے قطعاً ہٹ کر نظر آئے۔تحریک انصاف کے حامیوں نے بھرپور جوش وخروش سے ان میں ووٹ ڈالتے ہوئے مذکورہ انتخاب کو ریفرنڈم میں بدل دیا۔ خدمت کا بیانیہ بری طرح پٹ گیا۔ یہ تصور بھی ہوا میں اڑ گیا کہ مسلم لیگ (نون) اگر وفاق یا پنجاب میں حکمران ہو تو سڑکیں صاف ستھری رہتی ہیں۔ خلق خدا کے لئے روزگار کے نئے امکانات فراہم ہوتے ہیں۔ گڈ گورننس پر اس جماعت کا اجارہ ختم ہوا۔ لاہور بھی جسے دہائیوں کی محنت نے شریف خاندان کا شہر بنا دیا تھا اب اس کے ہاتھ سے پھسل گیا ہے۔
خود کو تسلی دینے کے لئے مسلم لیگ (نون) کے کئی نابغے اب یہ تاویل گھڑرہے ہیں کہ اتوار کے روز ہوئے انتخاب میں ان کی جماعت کو حیران کن شکست سے دو چار نہیں ہونا پڑا۔ ووٹر درحقیقت تحریک انصا ف سے لوٹے ہوئے افراد کو سبق سکھانے کے لئے مشتعل ہوگئے۔ حمزہ حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے مسلم لیگ (نون)ان لوٹوں کو اپنا ٹکٹ دینے کو مجبور تھی۔ اس کے دیرینہ ووٹروں نے اس فیصلے کو پسند نہ کیا۔ انہیں ووٹ دینے کے بجائے گھر بیٹھے رہنے کو ترجیح دی۔ مسلم لیگ (نون) اگر اپنے وفاداروں ہی کو میدان میں اتارتی تو نتائج مختلف ہوتے۔مذکورہ تاویل ہر اعتبار سے بودی اور ناقص ہے۔
مسلم لیگ (نون) کی حیران کن شکست کا بنیادی سبب لوٹے نہیں جان لیوا مہنگائی ہے۔عام پاکستانی سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ عمران خان صاحب کی اقتدار سے رخصت کے بعد کونسا عذاب اچانک نازل ہوگیا جس کی وجہ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے کئی برسوں بعد لوٹ آئے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان کو چھونا شروع ہوگئیں۔بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ وہ یہ حقیقت تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہورہا کہ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ معاشی میدان میں جو افسردگی نظر آرہی ہے وقت اس کی برسوں سے پرورش کررہا تھا۔
رواں برس کے فروری کے آخری ہفتے میں روس کے یوکرین پر حملہ آور ہوجانے کے باوجود مسلم لیگ (نون) عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمی کے منصب سے فارغ کروانے کی تڑپ میں مبتلا رہی۔ اس تحریک کو ہر صورت 29مئی2022سے قبل کامیاب کروانا لازمی تصور کرلیا گیا۔خلق خدا کو مذکورہ تاریخ کی اہمیت کی بابت ہرگز اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ مذکورہ تاریخ ایک اہم ریاستی عہدے پر تعیناتی اور اس کے ممکنہ اثرات کو اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہ نما فقط ڈرائنگ روموں ہی میں زیر بحث لاتے رہے۔ عوام یہ سمجھ ہی نہ پائے کہ مذکورہ دن کے بعد کونسی قیامت برپا ہوجانا تھی جسے ٹالنے کے لئے گیارہ جماعتیں یکسوہوکر اکیلے عمران خان کے خلاف صف آرا ہوگئی ہیں۔
کوئی پسند کرے یا نہیں عمران خان صاحب نے اپنے خلاف ہوئی محلاتی سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔میں ذاتی طورپر امریکی سازش کو ان کی فراغت کا سبب نہیں ٹھہراتا۔ تحریک انصاف کے دیرینہ متوالے مگر اس سازشی کہانی کو دل وجان سے اپنا چکے ہیں۔ میرجعفر کی بابت بنائی داستان بھی انہیں بہت بھائی ہے۔ روایتی اور سوشل میڈیا کے جارحانہ استعمال کے ذریعے عمران خان صاحب اپنے بیانیے کو روزانہ کی بنیاد پر ورد کی طرح دہراتے رہے۔ ان کی جگہ حکومت میں آئے شہباز شریف اور ان کے وزرا کوئی طاقت ور جوابی بیانیہ تیار کرنے میں قطعاً ناکام رہے۔
عمران خان صاحب کی جگہ آئی حکومت کی کامل توجہ آئی ایم ایف کو رام کرنے تک محدود رہی۔ پاکستان کو امدادی رقم فراہم کرنے پر آمادگی سے قبل اس نے شہباز حکومت کو ایسے کئی فیصلے لینے کو مجبور کیا جس نے عوام کی روزمرہ زندگی کو اجیرن بنادیا۔ ہمارے دوست اور برادر بھی خاطر خواہ مالی امداد فراہم کرنے سے گریز کے عالم میں رہے۔
شہباز شریف اور ان کے وزرا نے آج تک یہ حقیقت لوگوں کے روبرو لانے کی جرات بھی نہیں دکھائی ہے کہ مقتدر حلقوں نے انہیں رواں مالی برس کا بجٹ تیار کرنے سے قبل یہ پیغام بھجوادیا تھا کہ مذکورہ بجٹ منظور کروالینے کے بعد رواں برس کے اکتوبر میں عام انتخاب کے لئے تیار رہنا ہوگا۔اس کے ایک ماہ بعد یعنی نومبر2022میں ایک اہم ترین ریاستی عہدے کی تعیناتی کی بابت فیصلہ ہونا ہے۔ مقتدر حلقوں کی خواہش تھی کہ یہ فیصلہ صاف ستھرے انتخاب کے ذریعے قائم ہوئی نئی حکومت کا وزیر اعظم کرے۔
شہباز شریف مبینہ پیغام ملنے کے بعد گھبراگئے۔ انہیں خوف لاحق ہوگیا کہ آئی ایم ایف کو ہرصورت رام کرنے والا بجٹ تیار کرنے کے چند ہی ہفتوں بعد وہ اگر عوام سے ووٹ کے طلب گار ہوئے تو ان کی جماعت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اپنے وزرا سمیت لندن چلے گئے۔ مسلم لیگ (نون) کے حتمی فیصلہ ساز نواز شریف کے ساتھ طویل مشاورت ہوئی۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ عوام کو اذیت دینے والا بجٹ پیش کردیا جائے۔اس کی منظوری کے بعد مگر نئے انتخاب کے انعقاد کے لئے اگلے برس کے اگست تک ہر صورت اقتدار ہی میں رہنا ہوگا۔ مذکورہ فیصلہ عوامی جذبات سے قطعا غافل دکھائی دیا۔
بہرحال آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ضمنی انتخاب نہیں ریفرنڈماب ہوچکا ہے۔22جولائی کو تحریک انصاف کے نامزد شدہ صاحب اس صوبے کے وزیر علی منتخب ہوجائیں گے اس کے بعد عمران خان صاحب کے لئے سیاسی اعتبار سے لازمی ہوجائے گا کہ وہ لاہور کو مرکز بناتے ہوئے اسلام آباد پر لانگ مارچ کی تیاری کریں اور اس شہر پہنچ جانے کے بعد نئے انتخاب کی تاریخ لے کر ہی واپس جائیں۔ رانا ثنا اللہ کے لئے پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے آئی عوامی یلغار کے آگے بند باندھنا ناممکن ہوجائے گا۔ بہتر یہی ہے کہ شہباز صاحب ازخود وزارت عظمی سے مستعفی ہوجائیں ۔ان کے اتحادی اس کے لئے رضا مند نہ ہوں تو موجودہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بجائے اسے کسی اور شخص کو وزیر اعظم منتخب کرنے کو مجبور کریں۔ یہ قدم اٹھائے بغیر مسلم لیگ (نون) کی سیاسی عمل میں گج وج کر بحالی آئندہ کئی مہینوں تک ناممکن ہوجائے گی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت