سدا بادشاہی صرف خدا کی ہے۔ اللہ تعالی ہی پوری کائنات کا مالک اور خالق ہے۔ اسی کا حکم ساری کائنات پر چلتا ہے۔ کچھ ممالک مگر ایسے بھی ہیں جن کے حکمران اپنے تئیں ارضی خدا بن بیٹھے ہیں۔ وہ جائز اور ناجائز طریقوں سے دنیا پر اپنا سکہ جمانا اور چلانا چاہتے ہیں ۔ان کے پاس دولت ہے، جدید ترین علم ہے اور مہلک جنگی ٹیکنالوجی ہے۔ وہ اپنی ان متنوع قوتوں کے بل پر دنیا پر مطلق راج کرنا چاہتے ہیں ۔
ایسے ممالک میں امریکا سرِ فہرست ہے۔ دنیا کی اکلوتی سپر پاور ۔ چین اس اکلوتی سپر پاور کو ہر روز چیلنج کر تو رہا ہے لیکن ابھی چین، امریکا کے ہم پلہ نہیں ہے۔ امریکا مبینہ طور پر دنیا میں اپنی مرضی کے حکمران بنانے اور انھیں تخت سے اتارنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس کی یہ طاقت مگر مسلم ممالک میں بیشتر اوقات بروئے کار آتی ہے۔
صدام حسین اور کرنل قذافی کو اقتدار سے ذلت کے ساتھ اتار اور انھیں موت کی وادی میں پہنچا کر اس نے حالیہ برسوں میں نئی ظالمانہ داستان رقم کی ہے۔ امریکا نے افغانستان برباد کیا، عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، لیبیا کی بنیادیں ہلا دیں اور شام کو بکھیر کر رکھ دیا۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے لیکن امریکا کو دنیا کی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکا۔ امریکا میں ایسی کشش ہے کہ ہم مسلمان (عوام اور حکمران) اس کی بے پناہ مخالفت بھی کرتے ہیں اور پھر امریکا ہی میں آباد بھی ہونا چاہتے ہیں۔ امریکا بھی ہماری دورخی اور متضاد سوچوں سے آگاہ ہے، اس لیے وہ ہماری مخالفتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
ہم ایسے غریب، محتاج اور سیاسی و معاشی اعتبار سے ہمہ وقت لرزاں و ترساں ممالک امریکی صدر کو کسی باجبروت بادشاہ سے کم نہیں سمجھتے۔ امریکی صدر کی نظرِ کرم اگر کبھی ہمارے کسی حریف ملک کی جانب نسبتا زیادہ جھکاو اختیار کر جائے تو ہمیں جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ امریکی صدر کی خوشنودی حاصل کرنا ہمارے ہر حکمران کی اولین خواہش اور تمنا رہتی ہے۔
یہ تلخ و ترش بات ہے مگر ہے حقیقت۔ امریکی صدر کی طاقت و حشمت اور عالمی اثرو رسوخ کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کبھی امریکی صدر کسی ملک یا ممالک کا دورہ کرتا ہے تو سارے خطے پر اِس دورے کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ساری دنیا کے حکمرانوں، میڈیا اور دانشوروں کی نگاہیں اس ملک پر مرکوز ہو جاتی ہیں جہاں امریکی صدر دورے پر ہوتا ہے ۔
اب امریکی صدر ، جو بائیڈن اسرائیل، بچے کھچے فلسطین (غزہ کی پٹی) اور سعودی عرب کے دورے پر آرہے ہیں توسارا مشرقِ وسطی الرٹ کھڑا ہے ۔ مشرقِ وسطی کے جملہ طاقتور بادشاہ بھی بادشاہوں کے اِس بادشاہ کی آمد آمد پر بھرپور انداز میں اٹینشن کھڑے ہیں۔ 13جولائی کو جوبائیڈن نے اسرائیل میں قدم رکھ دیا۔ یروشلم میں جو بائیڈن فلسطینی صدر سے بھی ملیں گے۔ ممکن ہے جس وقت یہ سطور شائع ہوں، امریکی صدر سعودی عرب بھی آ چکے ہوں۔
جو بائیڈن کی سعودی عرب آمد سے قبل سعودی ولی عہد جناب محمد بن سلمان نے فوری طور پر مصر، اردن اور ترکی کا تفصیلی دورہ کیا تاکہ امریکی صدر کی آمد سے قبل اپنے کچھ متعلقہ معاملات سیدھے کرکے زمین ہموار کی جا سکے۔ مصر اور اردن تو پہلے ہی سعودی عرب کے ہمنوا ہیں۔ ترک صدر کی مگر اپنی ترجیحات ہیں اور سعودیہ سے کچھ کچھ مبینہ ناراضیاں بھی۔ ان ناراضیوں میں ترکی میں سعودی سفارتخانے میں ایک معروف سعودی اخبار نویس، جمال خشوگی کے بہیمانہ قتل کا سانحہ مرکزی کردار ادا کررہا ہے۔
جو بائیڈن بھی ماضی میں بوجوہ سعودی عرب سے ناراضی کا اظہار کر چکے ہیں۔ سعودی عرب جس طرح مصرکو سالانہ اربوں ڈالرز کی امداد فراہم کر رہا ہے، اِن مہربانیوں کے بعد مصری صدر سعودیہ کی مرضی و منشا سے باہر کیسے جا سکتے ہیں؟ متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب نے حال ہی میں مصر کو 22ارب ڈالرز کی بھاری بھر کم مالی امداد سے نوازا ہے۔ رواں برس کے آغاز میں مصر کو دی گئی یہ امداد ڈپازٹس اور ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کی شکل میں دی گئی ہے تاکہ کمزور مصری معیشت کو طاقتور سہارا مل سکے۔ مصر، امریکا کا بھی زبردست اتحادی ہے اور اسرائیل تو لاریب امریکا کا بغل بچہ ہے۔
امریکی صدر کی سعودیہ آمد سے قبل قاہرہ، امان اور استنبول میں سعودی ولی عہد کی جنرل السیسی، شاہ عبداللہ دوم اور طیب اردوان سے تفصیلی ملاقاتیں لا حاصل نہیں رہیں۔ اب سعودی عرب میں امریکی صدر قدم رکھیں گے تو مطلوبہ طور پر جو بائیڈن کو زمین ہموار ملے گی۔ جو بائیڈن کی زیر صدارت جدہ میں شرقِ اوسط کے کئی ممالک کی سربراہی کانفرنس بھی ہوگی جس میں سعودی عرب ، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات کے سربراہان شرکت کریں گے اور خطے کے کچھ نہائت گنجلک معاملات کو سلجھانے کی کوشش کریں گے۔
اِن گنجلک معاملات میں مسئلہ فلسطین کا کوئی متفقہ حل نکالنا اور سعودی عرب ویمن کی جنگ کا بند کرانا اور ایرانی معاملات سرِ فہرست ہے لیکن ایک مسئلہ مذکورہ مسائل سے بھی اوپر کی اہمیت رکھتا ہے اور وہ ہے سعودی عرب کا تیل کی پیداوار بڑھانا۔ روس نے یوکرین پر تباہ کن حملہ کرکے دنیا کو خوراک ، گیس اور پٹرول وڈیزل کے سنگین مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے۔ شنید ہے کہ امریکی صدر کے دورئہ سعودی عرب کا مرکزی مقصد ہی یہ ہے کہ سعود ی حکمرانوں سے کہا جائے کہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے تاکہ امریکا اور دنیا بھر میں تیل کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی قیامتوں میں کمی لائی جا سکے۔
برطانیہ کے معروف اخبار فنانشل ٹائمز نے اپنے ایک تازہ آرٹیکل میں اِس امر کا جائزہ لیا ہے کہ اگر سعودی عرب تیل کی پیداوار میں مطلوبہ اضافہ کرتا ہے تو دنیا بھر کو پٹرول اور ڈیزل کی مد میں کتنا اور کس قدر ریلیف ملے گا۔ ہم پاکستانی جو پیٹرول و ڈیزل مہنگے ہونے کا رن بِلک رہے ہیں، امید رکھ سکتے ہیں کہ امریکی صدر کی درخواست کے نتیجے میں سعودی عرب تیل کی پیداوار میں اضافہ کر دیتے ہیں تو ہم بھی پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں نیچے آنے سے مہنگائی میں کمی کی امید رکھ سکتے ہیں۔ بھارت اور چین چونکہ آئی ایم ایف کے محتاج نہیں ہیں، اس لیے وہ معاشی طاقت کے بل پر روس سے 30فیصد سستا تیل مسلسل خرید رہے ہیں ۔
چین پچھلے پانچ ماہ کے دوران ( جب سے روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے) روس سے 14ارب ڈالر اور بھارت، روس سے 4ارب ڈالرز کا سستا تیل خرید چکے ہیں جبکہ ہم تو ابھی محض سوچ بچار ہی کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں ہماری امیدیں امریکی صدر کے کامیاب دورئہ سعودی عرب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ امریکی صدر کی سعودیہ آمد سے تین ہفتے قبل پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سعودی عرب کی طرف سے کنگ عبدالعزیز ایکسی لینسی ایوارڈ کا دیا جانا بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ