سب کو جاننا ضروری تو نہیں۔۔۔تحریر محمد اظہر حفیظ


آج اسلام آباد سے لاہور براستہ موٹروے آتے ہوئے بیٹی نے اپنی یو ایس بی لگا دی جس میں عارفانہ کلام عابدہ پروین صاحبہ اور نصیبو لال صاحبہ پیش کر رہی تھیں۔ جھوم جھوم کے بعد جب ایک مصرح پڑھا گیا کہ سب کو جاننا ضروری تو نہیں۔ صبح سے میں اسی جملے میں اٹکا ہوا ہوں کہ یار میں نے ایک غیر ضروری کام کے پیچھے زندگی ضائع کردی۔ مجھے جاننے کا شوق تھا پھر شوق سب کو جاننے تک پہنچ گیا اور میں کچھ بھی نہیں جان سکا۔ اگر میں اپنے اس جاننے کے شوق کا فوکس محدود رکھتا تو بہتر صورتحال میں ہوتا۔ پینڈو بندے کو جاننے کا شوق عام بندوں سے زیادہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتا رہتا ہے کہ میں زندگی میں پیچھے پینڈو ہونے کی وجہ سے رہ گیا ہوں۔ جو دیکھا جو کھایا سب سیکھنے کی کوشش شروع کردی اور آخر میں آیا کچھ بھی نہیں ۔
نان پہلی دفعہ راولپنڈی میں دیکھا ۔ گاؤں میں اس طرح کی چیزیں نہیں ہوتیں تو جاننے نکل پڑے کہ یہ کیسے بنتا ہے۔ آٹا خمیر کیسے پکڑتا ہے، تندور والا نان لگاتے وقت جو پانی استعمال کرتا ہے اس میں گلوکوز کیوں ڈالتا ہے۔ تندور پر روٹی لگانے سے پہلے کافی دیر تندور کو گرم کیوں کیاجاتا ہے یہ سب کچھ جاننے کے بعد پتہ چلا کہ بہت وقت ضائع کیا میرا تندور اور نان سے کیا کام۔ ساتویں جماعت میں تھا تو گھر گھر ریڈیو بج رہےتھے اور مجھے ریڈیو بنانے کی سوجھی اور ریڈیو بنا دیا پر یہ تو پہلے سے ہی موجود تھا۔
دسویں جماعت میں اپنے گھر شفٹ ہوگئے بڑی بہن باجی راشدہ نواز نے پینٹنگ گفٹ کی۔ اور اس پینٹگ کو جاننے کے عمل نے زندگی کے 36 سال لے لیئے، تیسری کلاس میں تھا تو طاہر بھائی اور نواز بھائی کو فوٹوگرافی کرتے دیکھا اس عمل کو جاننا چاہتا تھا اور زندگی کی کئی دھائیاں اس پر صرف کردیں۔ فلم ہیر رانجھا آٹھویں کلاس میں دیکھی اورہیر کی تلاش اور اس عشق کو جاننے کا عمل جاری ہے بانسری بجانا بھی سیکھی پر بھینسیں کسی بھی لڑکی کے والدین پاس نہیں تھیں بس یہ علم بھی تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ بابوں کا جاننے کا سفر شروع کیا اور اپنا آپ ہی بھلا بیٹھے کسی نے کہا کہ تم جان گئے پر میرا خیال ہے کہ جان سے ہی گئے۔ اس علم کیلئے کئی سفر کئے پر بے سود سب بابے اب قبروں میں موجود ہیں اور نئے آج کل آ نہیں رہے۔ سجدہ ہمیشہ رب کو ہی کیا اور کرتا رہوں گا انشاء الله کچھ عقل مندوں کا خیال ہے کہ بابوں کو جاننے کے علم میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ میں نے ساری زندگی جاننے کے پیچھے ہی لگا دی پراپنے بارے میں بھی کچھ جان نہیں پایا۔ پھر پرانی انارکلی میں سعید ملک سے ملاقات ہوئی نمبرالوجسٹ تھے ان کا خیال تھا وہ سب جانتے ہیں اور بہت سے لوگ ان سے اپنے بارے میں جاننے آتے ہیں۔ سوچا یہی عالم ہے جو جانتا ہے۔ پھر اسٹرالوجی، پامسٹری، نمبرالوجی کے علوم جاننے کی کوشش شروع کردی پتہ یہ چلا کہ یہ جو اس علم کے ماہر ہیں یہ اپنے آپ کے علاوہ سب کچھ جانتے ہیں۔ جاننے کا سفر جاری ہے ۔ میں ان میں شامل تھا جو اللہ کو جاننے کیلئے اس کی تلاش میں نکل پڑے ۔ پھر میرے رب نے مجھ پر احسان فرمایا مجھے میرا رب جو ہمیشہ سے میرے پاس تھا ساتھ ساتھ ہے سے ملا دیا۔ جاننے کا سفر مکمل تو نہیں ہوسکتا پر سب کو جاننا بھی تو ضروری نہیں ہے۔ جب آپ اپنے آپ کو مکمل نہیں جانتے تو رب کے بنائے سب جہانوں کو کیسے جان سکتے ہیں۔ اب کچھ سفر میں بغیر ہر طرف دیکھے کرنا چاہتا ہوں۔ میں بے خبر رہنا چاہتا ہوں کیونکہ باخبر ہونا بہت ہیبت ناک ہے۔ آپ سے سکون چھین لیتا ہے۔ آپ مجھ سے اختلاف کاحق رکھتے محفوظ رکھتے ہیں ۔ بے خبر لوگ زیادہ چین اور سکون کی زندگی گزارتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے تو زندگی دیکھنے اور پھر جو دیکھا اس کو دکھانے میں گزار دی۔ بے شک اللہ سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ جو نیتوں اور دل کے حال کو بھی جانتے ہیں دعاؤں کی درخواست ہے۔ جزاک الله خیر