پاکستان میں سورج کی شامت۔۔۔تحریر کشور ناہید


پرانا محاورہ ہے ’’اوچھے جٹ کٹورا بھیا، پانی پی پی ا پھریا‘‘۔ بس یہی حال اس وقت بوکھلائی ہوئی موجودہ حکومت کا ہے، یہ لوگ اصل میں چار سال میں ہو جانے والی کوتاہیوں اور زخموں پہ مرہم رکھنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ابھی کوئی 20 دن ہوئے ہیں جب میں نیلم ویلی میں تھی۔ مجھے عتیق نے نیلم جہلم پاور پراجیکٹ دکھایا اورکہا، ’’بس دو چار دن میں یہ چل پڑے گا‘‘۔ دل سے خوشی ہوئی کہ لو بجلی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کل اخبار میں خبر پڑھی دو دن بعد کہ دو ماہ کے لیے پراجیکٹ مرمت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کی نظر تو اڑتی خبر پر بھی پڑ جاتی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ تمام دفاتر کو جلد از جلد (یہ وہ ہر پروجیکٹ کے بارے میں کہتے ہیں، چاہے ٹرین چلانی ہو کہ سڑک بنانی ہو) سولر انرجی پہ منتقل کر دیا جائے۔ میں نے گرمیاں شروع ہونے سے پہلے ایک سولر انرجی کمپنی والوں کو بلا کر پوچھا کہ میرے دو کمروں کے پلانٹ کے کتنے پیسے لو گے؟ اس نے سارا زائچہ بنا کر کہا… آپ سے بس چھ لاکھ روپے۔ میں نے اپنی اوقات سے باہر اس تجویز کو رَد کیا اور سوچا کہ بجلی کا بل گرمی کے چھ مہینوں میں کئی لاکھ تو نہیں بنے گا۔ اس وقت یہ حال ہے کہ ہر انگلی جو اُٹھ رہی ہے وہ سولر انرجی کی بات کے علاوہ کچھ اور سوچ ہی نہیں رہی۔ مجھے خیال آرہا ہے کہ سورج پر اتنی دراز دستی دیکھ کرکل کلاں کہیں سورج ہی غائب ہوجائے تو پھر کیا ہوگا۔ سورج کی کرنوں کی تمازت بلیک ہول کی وجہ سے پہلے ہی کم ہورہی ہے۔ جہالت نے مجھے سمجھایا کہ اس سے سورج پہ اس طرح کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جیسے بھوک بڑھنے کے باوجود ہمارے ملک کی آبادی دگنی تگنی ہوئے جارہی ہے۔ جہالت کم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں تو پھر یہ آئے دن افتتاح کن چیزوں کا ہو رہا ہے؟ یہ دراصل سانپ سیڑھی کا کھیل ہے یا کبھی کے دن بڑے، کبھی کی راتیں۔

ہماری قوم کو عموماً اور رپورٹرز کو بالخصوص بیان کرنے کے لیے اور اس کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے کسی خاتون کا نام چاہئے۔ چاہے وہ بچی اور کم سن دعا زہرہ کا قصہ ہو کہ دو سال سے دبی ہوئی، طیبہ کی تکلیف دہ داستان۔ دراصل یہ مردوں کی نفسیات کی صدیوں پرانی کہانی ہے ۔ پوچھو تو ہنس کے کہہ دیتے ہیں ’’پانسا پھینکا تھا۔ جیت گئے تو سبحان اللہ، ہارے تو بازی مات نہیں‘‘۔ بس ذرا سا منہ کا ذائقہ بدلنا چاہتا تھا۔ پھر ظفر اقبال کا مصرعہ یاد آجاتا ہے کہ’’ دروازے تک جو آیا ہے،اندر بھی آجائے گا۔ ‘‘

عمران خان کے ہم نام پہ جس طرح 17 مقدمات بنائے گئے ہیں جیسے الطاف گوہر کو یحییٰ خان کی کفالت کرتے کرتے جیل کا رستہ دکھایا گیا اور ان پر بھی بے شمار مقدمات بنے۔ یعنی گزشتہ 60برس سے صرف پکڑے جانے والوں کا نام بدل جاتا ہے۔ پہلے صحافی پکڑے جاتے تھے تو ہتھکڑی نہیں لگتی تھی۔ البتہ میرے شوہر یوسف کامران اور حبیب جالب دونوں کو ہتھکڑی لگی تھی جب کہ جالب نے لکھا کہ میری چھوٹی بیٹی ہتھکڑی دیکھ کر رو پڑی۔ میں نے ویسے دونوں کے مقدمات اعجاز بٹالوی کے ساتھ لڑے تھے۔

کسی شاعر نے کہا تھا ’’کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو، محمود شام کا کبھی کبھار مضمون پڑھ کر یہ مصرعہ یاد آتا ہے کہ جنگ اور اخبار جہاں کو چار چاند لگانے کے بعد قلم جیب میں نہیں رکھا۔ ایک رسالہ بھی باقاعدگی سے نکالتے ہیں اور ناگفتہ بہ حالات کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ صحافت کے خار زار سے بھاگے ہوئے ، مجاہد بریلوی اور مستنصر حسین یاد آتے ہیں۔ سرور سکھیرا بھی کہیں آس پاس نہیں کہ جب اٹھے تو صحافت اور پرنٹ میڈیا میں تہلکہ مچایا۔ حکومت بدلی وہ بھی حلیہ بدلنے باہر چلے گئے۔ البتہ حسن نثار نے بولنے کی زیادہ لکھنے کی کم مشقت کی ہے کہ مولانا طارق جمیل کی طرح مختلف چینلز پر نظر آجاتے ہیں، اپنا بہت عزیز برخوردار ہے۔ قوتِ قلم، قوت گفتار سے بڑھ جائے تو ہم سب کو اچھا لگے گا۔

مہنگائی کے اس زمانے میں جب بھی بچت کرنے کا سوچا، ایک چھوڑ دس چیزیں سر اٹھا کر اور چلا کر کہتی ہیں میرےبارےمیں کیا خیال ہے ہمارے ملک میں سیاسی موضوعات پر کوئی خاتون ارون دھتی رائے کی طرح لکھنے والی کیوں نہیں؟ پہلے انیس مرزا، پریس گیلری، نصرت جاوید کی طرح لکھتی تھیں۔ اب یہ نصرت کی بیٹ نہیں رہی اور وہ بار بار کہتا ہے، ’’آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ۔‘‘ امر جلیل ہولے ہولے چٹکیاں لیتا ہے اور وجاہت مسعود اور عاصمہ شیرازی پرانی تاریخ کو بھولنے نہیں دیتے ۔ البتہ مظہر عباس تو پاکستان کی چلتی پھرتی تاریخ ہے جس نے کراچی میں بے پناہ قتل و غارت دیکھی ہے۔

ہر سال کراچی اور بلوچستان والے بارش کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ موسم نے کہا اس بار ان کی ساری حسرتیں نکال دیتے ہیں۔ بلوچستان میں غریب لوگوں کے مٹی کے گھر کے علاوہ ڈیم تک ٹوٹ گئے۔ کراچی اور لسبیلہ کے اردگرد گوٹھوں کے رہنے والے بھی بے گھر ہوگئے۔ غریبی میں آٹا پتلا، بس یہی حال حیدرآباد میں بھی ہوا بلکہ پورےسندھ اور بلوچستان میں امدادی کام کون کررہا ہے؟ وہی افواج پاکستان، بحالی سے راشن تک وہی مہیا کررہی ہے اور وہ ہمیشہ آفت زدہ علاقوں میں ہیلی کاپٹر لیے پہنچ جاتے ہیں۔ مجھے تلاش رہتی ہے کہ مقامی نمائندے بھی فوج کی مدد کرکے کام کرتے نظر آئیں۔ مگر وہ تو ہر حال، ہر موسم اور ایسے مواقع میں غائب ہوتے ہیں اور الیکشن کے وقت برساتی کیڑوں کی طرح نکل آتے ہیں۔ اس وقت ساری دنیا میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنےکی اسکیمیں سامنے آرہی ہیں۔ افریقہ کے تو بے شمار ملک بارش کا پانی ہی روزمرہ میں استعمال کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں موسم میں رونما ہونے والی اچانک بارش، سردی یا گرمی زیر بحث ہے۔ بنگلہ دیش میں تو ہرسال ہزاروں لوگ بارش سے بے گھر ہوتے ہیں۔ کیا تینوں ملک یعنی پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش مل کر کوئی لائحہ عمل، کوئی منصوبہ نہیں بناسکتے؟ جنوبی ایشیائی ملکوں کو یورپی یونین کی طرز پر اپنی یونین بنانی چاہئے، اس موضوع پر بحث بہت ہوئی، عمل کی ضرورت ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ