بدانتظامی، بدتہذیبی اور بدحواسی۔۔۔تحریرمحمد عبدالشکورصدرالخدمت فاؤنڈیشن پاکستان


یہ اعزاز کم ہی خوش نصیب اداروں کو حاصل ہوتا ہے کہ وہ تینوں ہی میدانوں میں پہلی پوزیشن حاصل کر لیں۔
آج صبح جب میں نیویارک روانہ ہونے کے لئے لاہور ایر پورٹ پہنچا اور گاڑی سے سامان اتار کر ٹرالی حاصل کرنا چاہی کہ سامان لاد کر لاؤنج میں لے جا سکوں تو دُور تک کوئی ٹرالی نظر نہ آئی۔
مسافروں کی لمبی قطاریں لگی تھی اور مجھے خدشہ تھا کہ کہیں لیٹ نہ ہو جاؤں، میں نے ڈرائیور سے سامان پہ نظر رکھنے کا کہا اور خود برآمدے میں آگے تک نکل گیا کہ شاید کہیں سے ٹرالی کا سراغ مل پائے۔ خدا خدا کر کے کسی گیٹ میں پھنسی ایک ٹرالی نظر آگئی، اسے گھسیٹ کر اپنے سامان کے پاس لا ہی رہا تھا کہ پیسنجر ڈراپ لین میں ایک ہنگام سا نظر آیا۔ کرین، غلط پارک شدہ ایک گاڑی کو اُٹھا کر لے جانے کا بندوبست کر ہی رہی تھی کہ ایک بنی ٹھنی، کھلے بالوں اور دراز قد والی کوئی “خاندانی” لڑکی دوڑتی آئی اور اُسے دیکھتے ہی سارا ایکشن رُک گیا۔ پہلے، لڑکی نے گھُور کر دیکھا، ذرا دیر کو رُکی، پھر مسکراتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور پورے اطمینان سے اسی گاڑی کو، جسے کرین نے اُٹھا کر لے جانا تھا، میں سوار ہو کر روانہ ہو گئی، جیسے کوئی “خلاف ورزی” ہوئی ہی نہ تھی۔
انٹرنیشنل لاوئج میں داخلے کے تین میں سے دو دروازے نیم کھلے تھے۔ وہاں عملے کے دو تھکے ہوئے افسران مسافروں کے ٹکٹ دیکھتے، پورے اطمینان سے اُن پر درج نام، تاریخ اور ایر لائن پڑھنے کی کوشش کرتے، ٹکٹ اُن سے پڑھا نہ جا سکے تو سوال جواب کرکے تسلی کرتے اور بالآخر خوش قسمت مسافر کو اندر جانے کا اجازت نامہ عطا کر دیتے۔ قطار بہت لمبی تھی، بچے ، عورتیں اور بُوڑھے بیقرار ہو رہے تھے۔ اتنے میں ایک نوجوان “صاحب نما” افسر گیٹ سے باہر آیا اور لوگوں کو خاموش رہنے اور قطاریں برقرار رکھنے کی تاکید کرنے لگا۔ ایک آواز آئی “ حُضور بہت تاخیر ہو رہی ہے، آپ تیسرا گیٹ ہی کھلوا دیں۔ گرج دار لہجے میں جواب ملا تیسرا گیٹ صرف سٹاف کے لئے ہے، آپ سب کو اسی لائن میں انتظار کرنا ہو گا۔ کسی من چلے نے احتجاج کرتے منظر کو کیمرے میں سمونا چاہا تو آواز ایک بار پھر گرجی “ کیمرے سے تصویر بنانا بند کرو ، یہ تماشا ہم ہر روز دیکھتے ہیں، آپ لوکوں کو تمیز سیکھنا چاہئے۔” صاحب” کا لہجہ کرخت بھی تھا اور بے مروت بھی۔ مسکراہٹ تو شاید اس نے اپنے بچپن میں بھی نہ دیکھی ہو۔
اس اذیت سے گزر کر جب ہم اندر لاوئج میں پہنچے تو حیرت ہوئی کہ خالی ٹرالیاں (جو باہر ناپید تھیں) جا بجا لاؤنج میں بکھری پڑی ہیں۔ پتہ چلا کلی حضرات صرف اپنے لئے ٹرالی باہر لاتے ہیں تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ کمائی کا موقع مل سکے، باقی ٹرالیاں جان بُوجھ کر اندر ہی رکھ دی جاتی ہیں۔
چیک اِن اور امیگریشن کاؤنٹر ز پر بھی سٹاف کی باہمی گپ شپ، مسافروں سے بے رُخی اور
بدتمیزی کے مناظر جا بجا بکھرے نظر آرہے تھے۔
پاکستان کی ایرپورٹس پر ایک دن میں چند سو یا چند ہزار ہی مسافر موجود ہوتے ہیں، مگر ان کو سنبھالنا بھی ہمارے لئے کِس قدر عذاب بن چکا ہوتا ہے، جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک کے ایرپورٹس پر ایک ایک پہر میں لاکھوں مسافر انتہائی سکون اور اطمینان سے ایسے گردش کر رہے ہوتے ہیں جیسے شفاف آسمان پر تیرتے بیشمار ستارے۔
میں نے زندگی میں سینکڑوں ہوائی سفر کئے ہیں اور درجنوں ملکوں کے ایرپورٹ دیکھے ہیں۔ میں پورے اطمینان اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر
بد انتظامی، بدتہذیبی اور بدحواسی
کا بین الاقوامی مقابلہ کروایا جائے تو تینوں میدانوں میں لاہور ایر پورٹ گولڈ میڈل کا پورا پورا حقدار ٹھہرے ۔