یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے محترم چیئرمین جناب عمران خان صرف اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں ہی خبریں اکٹھی کرنے اور چور چورکے الفاظ کے استعمال کیلئے ان دنوں جلسے کررہے ہیں وگرنہ پنجاب کے صوبائی اسمبلی کے 20 ضمنی انتخابات کے نتائج کو ان کے حق میں آہی چکے ہیں۔ خان صاحب تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ انتخابی نتائج اور دھاندلی کے بقول ان کے ڈیڑھ سو سے زائد طریقے موجود ہیں۔ بغیر سیاسی کارکنوں کی موجودگی کے انتخابات میں جیت بھی غالباً ان ہی میں سے ایک مربوط طریقہ ہے۔ شام پانچ بجے کے بعد سیاسی کارکن غیر سیاسی بنکر نتائج تبدیل کردیتے ہیں تو ہمیں ڈسکہ کے انتخاب میں ہونیوالے باقی تمام طریقے بھی بتا دیں تاکہ ملک میں منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات ممکن ہوں۔ بار بار تکلف تو نہیں ہوا کرتا ، مہمان تین روز تک مہمان ہوا کرتا ہے پھر تکلفات دور کردیئے جاتے ہیں۔2002ءکے انتخابات کے بارے کچھ نہ کچھ تو جانتا ہوں مگر ڈسکہ کی ترکیب بھی وسیم اکرم پلس کے دفتر میں ہی بنی تھی۔ جانے انتخاب میں معصوم لوگوں کی جان لے کر کیا ملے گا؟ جانیں تو 2014ءمیں بھی مطلوب تھیں مگر قسمت کا فیصلہ ہی کچھ اور تھا۔
پی ٹی آئی کے پاس ایسے لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہے جو طلبہ یونینز کے انتخاب لڑتے تھے یا طلبہ سیاست میں مقام حاصل کرسکے تھے۔ ایک جاوید ہاشمی تو ان کے پاس تھے اور پاکستان کی طلبہ سیاست میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ ہم سینکڑوں نے ان سے رہنمائی حاصل کی ہوئی ہے اور جو تربیت ان کی یا ہماری ہوئی تھی تحریک انصاف اس سے سینکڑوں میل دور ہے۔ محمود الرشید، اعجاز چودھری یا کچھ اور ان کو کچھ نہ کچھ بتاسکتے ہیں۔ یونین الیکشن لڑنا اور تنظیم میں کام کرنا دو مختلف رخ ہیں اور سبھی ان دونوں سے واقف نہیں ہوتے ۔ لیاقت بلوچ، امیر العظیم کا تعلق طلبہ سیاست سے پاکستان کی قومی سیاست تک موجود ہے وہ سب کچھ جانتے ہیں یا پھر ہمارے دوست اور خان صاحب کے عزیز محترم حفیظ اللہ خان نیازی واقف ہیں۔ انگلی تو انہوں نے ہی پکڑی تھی نہ جانے راستہ کہاں اور کیوں جدا ہوا؟۔ بھانجا ماموں کا ساتھ دینا چاہتا ہے اور یہ والد کی فراخ دلی ہے ۔
گزشتہ روز ایک پرانے مہربان دوست پروفیسر مختار احمد صاحب نے جناب انجینئر ریاض احمد اپل صاحب کی ایک تحریر بھیجی تھی۔ تحریر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز احمد چودھری اور وفاقی وزیر احسن اقبال اور میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں ایک ساتھ پڑھتے رہے ہیں، احسن اقبال ہم سے ایک سال جونیئر تھے۔ کئی برس ہم لکھنا، پڑھنا ، کھانا ، دکھ ،سکھ کے ساتھی تھے۔ کسی سے کوئی بات چھپی نہ تھی، ہم گھریلو حالات سے بھی واقف ہوا کرتے تھے۔ ہر دو بار کے بارے قسم اٹھائی جاسکتی تھی۔ سلجھے ہوئے لوگ اور خاندان …….. یہ قدر کا کھیل کہ میں انجینئر رہا اور یہ دونوں میرے ساتھی میدان سیاست کے کھلاڑی بن گئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کی راہوں سے گزرتے ہوئے اعجاز چودھری پی ٹی آئی میں آگئے جبکہ احسن اقبال مسلم لیگ (ن) کے ہو لئے۔
سابق وزیراعظم اپنے اخلاقی تقاضوں اور معیارات کے مطابق پوری پاکستانی قوم کو بتا رہے ہیں کہ اعجاز چودھری چونکہ پی ٹی آئی میں ”غیرمتنازعہ“ ہیں اس لئے وہ تو نیک پارسا ہیں جبکہ نامعلوم اخلاقی معیارات کی بناءپر احسن اقبال چور بن گئے اور ابھی انہوں نے بھینس کھولی بھی نہیں۔ اپل صاحب کی تحریر کے مطابق اگر احسن اقبال پی ٹی آئی میں چلے گئے ہوتے اور اعجاز چودھری جماعت اسلامی یا مسلم لیگ (ن) میں رہتے تو بھیرا کا واقعہ گویا چور چور کے نعرے اعجاز چودھری کی تمام پارسائی کے باوجود ان کے گلے کا ہار بن جاتے اور گھیراﺅ کا شکار ہوتے ۔ اپل صاحب ان لوگوں سے سوال کررہے ہیں کہ یہ دس سال کی بچی احسن اقبال کو کس قدر جانتی ہے اور اس کے خاندان کے لوگ احسن اقبال کو ذاتی طور پر کیسے جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان یا ریاست مدینہ میں کیسے گواہی کیلئے پکار رہے تھے اور کیا ملک کی کسی عدالت نے اس طرح کا جرم ثابت ہونے پر کوئی سزا سنائی ہے۔ اگر ایسا کچھ نہیں تو اس کی ذہنیت کا علاج درکار ہے جو ملک میں لوگوں کو بدنام کرنے اور اپنی کارکردگی کے بارے میں کچھ بھی کسی بھی وقت تیار نہیں۔ نہ کروڑ گھر، نوکریاں، ملک کی معاشی حالت کی زبوں حالی، بین الاقوامی تعلقات کی خرابی اور کیا محض الزام کی سیاست کی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ کر کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اپل صاحب کے مطابق ملک میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اغیار کا مقابلہ کرنے کیلئے سادہ لوح عوام کی تربیت کی جائے۔ دین کی تعلیمات کے مطابق امن اور سلامتی کے راستے کو اختیار کیا جائے نہ کہ سی این این ، فوکس نیوز، بی بی سی اور دیگر مغربی ذرائع ابلاغ کے طریقوں کو اختیار کر کے سیاسی مذاکرات کا راستہ یا کھل کر جنگ شروع کی جائے۔
جناب سابق وزیراعظم جس حقیقی آزادی کے حصول کا نعرہ بلند کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ تاریخ پاکستان کا مطالعہ بھی ایک بار پھر کرلیں اس وقت وطن عزیز کیلئے ہزاروں نوجوان، خواتین، بزرگوں ، بچوں نے سرحد پار کرتے ہوئے بھی اپنی جان اس ماں پر قربان دی تھی جہاں ان کو اجتماعی قبروں میں جگہ ملی۔چاہیے تو یہ تھا کہ خود آپ کی کامیابیاں اس قدر شاندار اور عہد ساز ہوتیں کہ ہر قسم کی رسمی تعریف سے بالاتر قرار پاتیں، آپ پاکستان کو خود اعتمادی کے ساتھ خود انحصاری کی دولت سے مالا مال کرتے اگر آپ یوٹرن کی پالیسی پر گامزن نہ ہوتے تو عوام آپ کی کارکردگی کے بدلے آپ کو غیر متزلزل اعتماد کر کے لازوال بنا دیتے۔خان صاحب یہ بھی یاد رکھیئے کہ یہ ملک سماجی انصاف، مساوات، اخوت ، بہبود، منظم اور ہم آہنگ ترقی، امن اور سکون کے عمل کو روپ دینے کیلئے بنا تھا۔ بقول قائد اعظمؒ پاکستان کا قیام اس لئے ممکن ہو پایا کہ ایک اجنبی معاشرے میں اصولوں کا وجود خطرہ میں تھا ۔ کیا آج پاکستان خطروں سے باہر ہے یہ ہر کسی کا سوال ہے۔ اگر سوال نہیں تواحسن اقبال کے چور ہونے کا نہیں چونکہ اس کیلئے عدالتی فیصلے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار پچھلے بیالیس سالوں سے صحافت اور سیاست میں بیک وقت مصروف عمل ہیں ان سے رابطہ ma.chaudhary@hotmail.comپر کیا جا سکتا ہے۔)