چوہدری صاحب پر حملہ … تحریر ذوالفقار احمد چیمہ


بہت سے اختلافات کے باوجود چوہدری ایاز امیر ہمیں اچھے لگتے ہیں اس لیے کہ کبھی موج میں آکر وہ سچی بات بھی کرجاتے ہیں۔

ایازامیر صاحب پر تشدد کی خبر سنی تو بہت دکھ ہوا۔ سفر میں ہونے کی وجہ سے تفصیل معلوم نہ تھی اس لیے فوری ردِعمل یہ ہوا کہ میں ان کی خیریت کی دعائیں کرنے لگا اور پھر کئی دھائیوں سے ان کے ساتھ تعلق کی مختلف شکلیں ذہن کی اسکرین پر چلنے لگیں، تین دھائیاں قبل جب راولپنڈی کے بدنام جواخانے سمیش کرنے پر شیخ رشید صاحب نے میرا تبادلہ کرادیا تو ایازا میر صاحب نے ڈان میں میرے لیے کالم لکھا۔

بے شمار لوگوں کی طرح میں بھی ان کی خوبصورت انگریزی نثر کا مداح تھا، صاحبِ مطالعہ بھی ہیں اور پروگریسو بھی، وہ کبھی کبھار پولیس کا سامراجی اور دقیانوسی نظام تبدیل کرنے کے حق میں بھی لکھ دیا کرتے تھے اس لیے ہمیں مزید اچھے لگنے لگے۔ ہماری اشرافیہ اور حکمران انگریزی تحریر سے جلد متاثر ہوتے ہیں اس لیے انھیں مختلف کمیٹیوں میں شامل کرلیا گیا۔

انیس سو ستانوے  میں وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوگئے اور جلد ہی وزیرِ اعلی شہباز شریف کے چہیتوں میں شمار ہونے لگے۔ میں ان دنوں لاہور پولیس کا سربراہ تھا، اس لیے ان سے زیادہ ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ 1999 میں جنرل مشرف نے مسلم لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو وہ مشرف کے خلاف کسی جدوجہد میں شامل نہ ہوئے اس لیے قیدوبند کی صوبتوں سے بچے رہے لیکن میاں صاحبان سے قرب کے باعث وہ 2008 میں بھی مسلم لیگ ن سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگئے اور ایم این اے بن گئے۔ مشرف دور میں، میں نیشنل پولیس اکیڈمی میں تعینات ہوا جہاں اے ایس پیز کی ٹریننگ میرے سپرد کی گئی۔

پولیس اکیڈیمی کے اعلی حکام اور خود وزیرِ داخلہ جنرل معین حیدر کی مخالفت کے باوجود میں چوہدری ایاز امیر کو بطور گیسٹ اسپیکر بلاتا رہا۔ جنرل مشرف کے پورے دور میں میرے لیے پنجاب کے دروازے بند رہے۔ پولیس اکیڈمی کے بعد صوبہ سرحد (کے پی کے) کے مختلف علاقوں میں تعینات رہنے کے بعد 2008 کے وسط میں میری تعیناتی گوجرنوالہ ہوئی تو ایک شام میرے موبائل کی گھنٹی بجی، میں نے سبز بٹن دبایا تو ایاز صاحب کی آواز کانوں میں پڑی، میں نے بڑے تپاک سے پوچھا، چوہدری صاحب فرما کیویں یاد کیتا جے (میری ان سے گفتگو پنجابی میں ہی ہوتی ہے اور میں انھیں چوہدری صاحب کہہ کر بلاتا ہوں۔

فرمائیں کیسے یاد کیا ہے) کہنے لگے ادھر ادھر سے پتا چلا ہے کہ ہمارے ضلع چکوال کا ڈی پی او صرف آپ کی بات مانتا ہے، ہماری تو بات نہیں سنتا میں نے مسئلہ پوچھا تو فرمانے لگے اسے کہیں کہ فلاں پولیس افسر کو فلاں تھانے میں ایس ایچ او لگا دے۔ مجھے یہ بات عجیب سی لگی، اس لیے میں نے کہا، چوہدری صاحب!آپ جیساانٹلیکچوئل  کن چکروں میں پڑ گیا ہے۔

کہنے لگے دیہاتی سیاست میں یہ کرنا پڑتا ہے، میری یہ ذاتی درخواست  ہے اسے ضرور کروادیں۔ میں نے ڈی پی او چکوال کو اپنی سفارش کے ساتھ ان کی خواہش پہنچادی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ موصوف اہم فورمز پر پولیس سسٹم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات کرتے ہیں، ورنہ اس سطح پر پولیس کی نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈی پی او نے چوہدری صاحب کی خواہش پوری کردی۔ ایک ماہ بعد چوہدری صاحب کاپھر فون آگیا۔

اس بار قدرے طویل تمہید کے بعد فرمانے لگے کہ ڈی پی او چکوال نے فلاں ایس ایچ او کو کسی غلط فہمی کی بنا پر ہٹا دیا تھا، ان سے کہیں کہ اسے پھر اسی تھانے میں لگا دے میں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا چوہدری صاحب تھانیدار لگوانا آپ کے شایان شان نہیں اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ جج صاحب (میرے بھائی صاحب جو اس وقت رکنِ اسمبلی تھے) تو کبھی ایس ایچ او لگوانے کی سفارش نہیں کرتے، میں خود بھی کسی کی سفارش پر ایس ایچ او نہیں لگاتا، یہ ڈی پی او کی صوابدید ہے وہ جیسا مناسب سمجھے گا کر لے گا۔

انھوں نے اسے ذاتی اور آخری درخواست قرار دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ پولیس کے مخالف گروپ کا دباؤ بہت ہے، اس لیے حکومت پولیس آرڈر ختم کرکے دوبارہ 1861والا نظام نافذ کرنے پر تلی ہوئی ہے مگر میں جس حد تک ممکن ہے مز احمت کر رہا ہوں، آپ کو بھی چاہیے کہ اپنے سپورٹروں کا خیال رکھا کریں۔ اس بار میں نے ڈی پی او سے سفارش کرنے کے بجائے صرف یہ پوچھا کہ چوہدری صاحب جسے ایس ایچ او لگوانا چاہتے ہیں اس کی شہرت کیسی ہے؟ ڈی پی او کہنے لگا سر! اس کی شہرت اچھی نہیں ہے۔ میں نے ڈی پی او کی بات سنتے ہی کہا،میں ابھی ایاز امیر کو فون کرنے لگا ہوں کہ اس افسر کو ایس ایچ او  نہیں لگایا جا سکتا۔

پھر انھوں نے اپنے اگلے کالم میں چکوال میں امن وامان کی خرابی اور منتخب نمایندوں کی رائے کے حوالے سے کالم لکھا، نیز یہ کہ 1861 والا پولیس ایکٹ نافذ کرنا بے حد ضروری ہے۔ لہذا ڈی سی او اور ڈی پی او دونوں چوہدری صاحب کے کالموں کی زد میں آگئے، ضلعی افسران بیچارے ایک دو کالموں کی مار ہوتے ہیں، دونوں افسروں کو کالموں کی وہ مار دی گئی کہ دونوں تبدیل کر دیے گئے۔

دو ہزار تیرہ  میں انھیں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہ مل سکا۔ مگرچوہدری صاحب سے اس کے بعد بھی میرا رابطہ رہا۔ میں کبھی جب انھیں کہتا ہوں کہ چوہدری صاحب آپ کے توبہ شکن کالم پڑھ کر دل مچل اٹھتا ہے تو وہ یہ جان کر بھی مسکراتے رہتے ہیں کہ یہ صرف مجھے خوش کرنے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے۔ ان کی تقریر (جو ان پر تشدد کاباعث بنی) سنی تو معلوم ہوا کہ اس میں تو انھوں نے سب سے زیادہ کھنچائی عمران خان کی کی تھی، ورنہ خان صاحب صرف خوشامدانہ باتیں سننے کے عادی ہیں۔ چوہدری نے بھری محفل میں خان کی کلاس لے لی اور ان کے گرد بنا ہوا تقدس کا جالا توڑ کر رکھ دیا۔

چوہدری ایاز امیر کی بیباکانہ تقریر کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ان کے بعد آنے والے مقررین کو اپنی تقریروں سے خوشامد کا کچھ عنصر نکالنا پڑا۔ ہاں یاد آیا کہ ایک روز میں نے فون کرکے پوچھ لیا چوہدری صاحب آپ بڑے وسیع المطالعہ ہیں، کیا آپ نے وہ حیرت انگیز کتاب بھی پڑھی ہے؟ کہنے لگے کونسی؟ میں نے کہا جس کے مصنف نے عجیب و غریب دعوی کیا ہے کہ یہ دنیا، یہ کائنات، زمین، آسمان اور انسان ہر چیز کا تخلیق کار میں ہوں۔ کیا قرآن پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا ہے؟ اس کا انگریزی ترجمہ بھی باآسانی مل جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہاں  اور عبداللہ یوسف علی نے قرآن کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔

بہرحال ایک تو چوہدری ایاز امیر کبھی غیرمہذب گفتگو نہیں کرتے، دوسرے عمر کے لحاظ سے وہ اب بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں اس لیے ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی انتہائی نامناسب اور قابلِ مذمت ہے۔ الزام کا جواب دلیل سے دینا ہوگا ورنہ ملک میں انارکی پھیلے گی اور شہریوں کا ریاست کے ساتھ رشتہ کمزور ہوجائے گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس