الخدمت قربانی پراجیکٹ۔۔۔۔تحریر،زرافشاں فرحین


ہر سال کی طرح اس سال بھی سنت ابراہیمی عیدا لضحی کے موقع پر ساری دنیا میں انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جائے گی عید نام ہے خوشی کا اور بڑی عید یا عید قرباں کا موقع تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہی نہیں بڑے بوڑھوں خاندان کے سربراہان اور خواتین کو بھی ایکسائٹڈ کردیتا ہے۔۔۔ بچوں کو گھر میں آنیوالے بکرے دنبے کی خوشی و انتظار اور بڑوں کو ذبیحہ کے لئے بہترین جانور کی خریداری خواتین کو نت نئ مزیدار ڈشز کی تیاری متحرک کردیتی ہے
ان ساری مصروفیات میں شاذ ہی کسی کو خیال آتا ہے کہ یہ موقع یہ بڑی عظیم نیکی کی سعادت امت کو کسی کی بہت بڑی قربانی کے بعد نصیب ہوئی ہے
قربانی ہی نہیں لازوال داستان ہے ایک پورے خاندان کی جس کے ہر فرد نے اپنے بے مثال کردار سے امت کو تاحیات ہی نہیں دنیا و آخرت میں بھی مستفید ہونے کا موقع عطا کردیا۔۔ جی ہاں یہ خاندان ہے آنحضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ نبی جو ابو الانبیا ہی نہیں اپنی ذات میں پوری امت ٹہرے
رب کی نظر میں حنیف، خلیل اللہ کے منصب پر یونہی فائز نہیں کردئیے گئے بلکہ اپنی ذات کو مینارہ روشن  ثابت کرکے ممتازماڈل رول کل بھی تھے اور تاقیامت تک رہنیگے

ابراھیم علیہ السلام تو وہ ہیں جنھوں نے وفا کا حق ادا کردیا ”
آئیے اس بے مثال خاندان کی زندگی سے کچھ جھلکیاں اپنے ایمان کی تازگی کے لیے دہرالیں
سن شعور کی آنکھ اپنے ارد گردمٹی کے بتوں کی عبادت دیکھتی ہے اورچونک اٹھتی ہے حق شناسی طبیعت میں رچی بسی جو ہے اپنے خاندان برادری، کلچر، تہذیب و تمدن، حتی کہ مذہبی شعائر کے خلاف تنہا مخالف آواز بلند کرنا عام سی بات نہیں مگر یہ عظیم ہستی نبوت کے اعزاز سے قبل ہی خودکوثابت کردیتی ہے کہ حق تو حق ہے روشن، آفتاب کی صورت ساری دنیا بھی انکار کردے تو حق نہیں بدلتا ….. کیسا یقین تھا اور کیسی طلب تھی جو دل سے نکلی اور مجسم صورت بن کر آنجناب کی شناخت بن گئ
رب تعالیٰ کی تلاش پھر بے چین رکھتی ہے تو بالاخر اپنے محبوب کی رب کی بارگاہ میں قدم بوسی کا شرف مل ہی جاتا ہے اور کمال آفرین ہیں ابراہیم علیہ السلام کہ شرف و منزلت اپنی ذات تک ہی نہیں نسلوں تک آنیوالے زمانوں تک منتقل کرنا چاہتے ہیں نسل انسانی کی مفاد پرستی کی مثالیں آج تک موجودہیں بقول شخصے اہنا بخار بھی کوئ کسی کو نہ دے اور آپ ساری انسانیت کی فلاح چاہتے ہیں۔۔۔۔۔
انسانیت کی فلاح، خیرخواہی، مساوات و ہمدردی کی یہی سنت آج الخدمت بھی زندہ رکھتے ہوئے ہر اس گھر میں، ملک کے طول و عرض میں ہی نہیں شام، برما، فلسطین، افغانستان اور ہر اس مقام پر جہاں ناگہانی آفات یا جنگ سے متاثرین انسان غذائی قلت کاشکار ہوں یا سال بھر گوشت کی نعمت سے محروم ہوں ان سب تک قربانی “کے گوشت کی رسائ ممکن بنارہے ہیں

الخدمت کے مالی و جانی رضاکار فقط اللہ کی رضا کے لئے اس کار عظیم کا حصہ بنتے ہیں جو پوری انسانیت کے لئے آج تربیت، تزکیہ ہی نہیں معاشی تقویت کا بھی باعث ہے
عید قرباں روحانی تربیت کا زریعہ بھی ہے۔
ذبیحہ یا فی سبیل اللہ گائے، بکرے کی قربانی دراصل حقیقت میں اپنے رب کی محبت میں اپنا سب کچھ قربان کردینے، سب محبتوں قلبی وابستگی، اور رشتوں میں رب حقیقی کی محبت کو غالب کرنے کا زریعہ بنتی ہے گویا یہ تعلق باللہ بڑھاتی ہے
مال کی محبت کو ثانوی کردیتی ہے
قربانی کے گوشت کی اقرباء میں تقسیم باہمی محبت ایثار ہمدردی، انسیت محبت پیدا کرتی ہے، اور سب سے بڑھکر وہ قلبی تسکین جس کی آج انسانیت متلاشی ہے وہ انہونی خوشی جو عظیم نیکی کرکے حاصل ہوتی ہے اور نسبت ابراہیمی پر فخر و اعزاز نصیب ہوتا ہے اسکی کوئ چیز نعم البدل نہیں ہوسکتی۔۔۔۔

سنت ابراہیمی معاشی تقویت کا زریعہ ہے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ رسول اکر م ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال پابندی سے قربانی فرماتے تھے۔(مشکوٰۃ)

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے
حضور اقدسﷺ نے فرمایا: بقرعید کے دن قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ کے نزدیک محبوب نہیں ہے اور بلاشبہ قربانی کرنے ولا قیامت کے دن اپنی قربانی کے سینگوں، بالوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (یعنی یہ حقیر اشیاء بھی اپنے وزن اور تعداد کے اعتبار سے ثواب میں اضافہ ور اضافہ کا سبب بنیں گی اور (یہ بھی) فرمایا کہ بلاشبہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک درجہء قبولیت حاصل کرلیتا ہے ،لہٰذا خوب خوش دلی سے قربانی کرو۔ (مشکوٰۃ)

حضرت زیدبن ارقمؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسولﷺ یہ قربانیاں کیا ہیں؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، صحابہؓ نے عرض کیا، ہمارے لیے اس میں کیا ثواب اور اجر ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا : ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا، اگر اون والا جانور ہو (یعنی دنبہ ہو جس کے بال بہت ہوتے ہیں) اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اس کے بھی ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ (مشکوٰۃ)مذکورہ احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا

عیدالاضحی کے دن قربانی کرنا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے، پس جو عمل محبوب حقیقی کو محبوب ہو، اسے کس قدر محبت اور اہتمام سے کرنا چاہیے، اس دن قربانی کرنا ہمیں اللہ سے کتنا قریب لے جائے گا اور ہم پر سے کتنی مصیبتیں ٹل جائیں گی، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے،
اگر حالات حاضرہ کا زکر کیا جاۓ یعنی موجودہ دور کی بات کی جاۓ تو اس کے بالکل بر خلاف کہنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ ! قربانی کیا ہے یہ قربانی (معاذ اللہ) خوا مخواہ رکھ دی گی ہے، لاکھوں روپیہ جانوروں کے خون بہانے کی شکل میں لگا دیا جاتا ہے اور بڑے بڑے جانور اونٹ بیل اور بچھڑے گھر کے دروازے کے باہر نمائش کے لئے باندھ دئیے جاتے ہیں یہ عمل معاشی اعتبار سے نقصان دہ ہے، جانوروں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے لہٰذا قربانی کرنے کے بجائے یہ کرنا چاہیے کہ جو لوگ غربت کے ہاتھوں بھوک اور افلاس کی زندگی بسر کر رہے ہیں ہیں، قربانی کے گوشت تقسیم کرنےکے بجائے وہ روپیہ پیسہ غریب کو دیا جائے، تاکہ اس کی ضروریات پوری ہوجائیں۔ یہ پروپیگنڈا اتنی کثرت اور اس۔ طرح کی مثالیں دے کر کیا جاتا ہے کہہ کچھ لوگ اس پر سوچنے اور عمل کرنے کے لئے بھی تیار ہوجاتے ہیں اب عید قربان کے نزدیک لوگ علماء حضرات سے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ اگر ہم قربانی نہ کریں اور وہ رقم غریبوں میں تقسیم کردیں تو اس میں کیا حرج ہے؟یہ خودساختہ فلسفہ قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات کے صریح خلاف ہے۔اسلامی شریعت کے مطابق جیسا کہہ اوپر حدیث مبارکہ کا بھی زکر کیا ہے کہہ قربانی کے تین دنوں میں قربانی سے بڑھ کر اللہ کے نزدیک کوئی عمل محبوب اور پسندیدہ نہیں۔

اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور فرمانبرداری ہے۔ ہم اپنی جان کا نذرانہ قربانی کے جانوروں کو اُس کی علامت بنا کر بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں تو گویا اسلام کی اُس ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس کا اظہار حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی سے کیا تھا۔ اِس موقع پر تکبیر وتہلیل کے الفاظ اِسی مقصد سے ادا کئے جاتے ہیں۔ یہ، اگر غور کیجیے تو پرستش کا منتہاے کمال ہے۔ اپنا اور اپنے جانور کا منہ قبلہ کی طرف کر کے اور ’بِسْمِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُ‘ کہہ کر ہم اپنے جانوروں کوقیام یا سجدے کی حالت میں اِس احساس کے ساتھ اپنے پروردگار کی نذر کر دیتے ہیں کہ یہ درحقیقت ہم اپنے آپ کو اُس کی نذر کر رہے ہیں۔۔۔۔

اور اسکے نتیجے میں لاکھوں بیواؤں، یتیموں اور مستحق خاندان جو سال بھر گوشت نہیں کھاتے فیض یاب ہوتے ہیں
کروڑوں مویشیوں کی خریدوفروخت، ان مویشیوں کی غذا فروخت کرنے ، ذبیحہ کرنے،والوں کے روزگار ، پھر انکی کھال سے بننے والی لاکھوں اشیاء کی ہرسال تجارت ملکی و بین الاقوامی معیشت کے میدان میں نہ جانے کتنے خاندانوں میں رزق حلال کی فراہمی کا زریعہ بنتے ہیں اسکا حساب ہی نہیں۔۔
(مزید مطالعہ کے لئے مفید قربانی کی شرعی حیثیت از مولانا مودودی رح)

گویا آنجناب ابراہیم علیہ السلام نے اہنی اور اپنے خاندان کی فقیدالمثال سیرت مطہرہ سے پوری امت کے لیے لازوال احسانات کے دروازے کھول دئیے پروردگار نے درود ابراہیمی یونہی تو نہیں صبح و شام لازم کردیا ہم جتنا بھی بزبان تکبیر و درود کا اہتمام کریں کم ہے سچ تو یہ ہے کہ

اے مسلماں سن یہ نکتہ درس قرآنی میں ہے
عظمت اسلام ومسلم صرف قربانی میں ہے۔